قرآن و حدیث ،، آمنے سامنے ! حصہ اول، دوم

قرآن و حدیث ،، آمنے سامنے ! حصہ اول، دوم

May 22, 2013 at 11:44pm

محترم جناب قاری صاحب،السلام علیکم اگرچہ میں اھلِ حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ھوں،مگر چند احادیث کے بارے میں مجھے بہت خلجان ھے،، کسی نہ کسی پیج پر ان احادیث کے بارے میں اعتراض موجود ھے،، مگر میں جب بھی گھر والوں سے یا کسی عالم سے بات کرتا ھوں تو وہ مجھے بجائے مطمئن کرنے کے یا میرے احساسات کو سمجھنے کے ،، یا تو مجھے منکرِ حدیث ھونے کا طعنہ دیتے ھیں،، یا چپ کر کے ان احادیث پر ایمان لانے کو کہتے ھیں – میں آپ سے ایک تو یہ پوچھنا چاھتا ھوں کہ کیا ھر حدیث پر ایمان لانا ضروری ھے،، یا کیا کسی حدیث کو اگر انسان کا دل نہیں مانتا یا کوئی اس کو دلیل سے مطمئن نہیں کرتا تو کیا وہ شخص اس حدیث کو نہ مانے تو منکرِ حدیث ھو جاتا ھے؟؟؟؟ میں بہت پریشان ھوں نہ تو نماز میں دل لگتا ھے نہ سکون ملتا ھے،، مگر کوئی میری کیفیت کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کو تیار نہیں،،غیروں سے کیا گلہ کروں،،اپنے والد صاحب اور بھائی ھی دشمن بن گئے ھیں اور جس عالم کے پاس لے جاتے ھیں وہ بجائے میرے سوال کا جواب دینے کے ،ان کی باتیں سن کر مجھے ڈانٹنا شروع کر دیتے ھیں،، میری کوئی بات نہیں سنتے،، میں ابھی زیرِ تعلیم ھوں اور ان کا محتاج بھی، مگر میرا پڑھائی سے بھی دل اچاٹ ھو گیا ھے،ایسے لگتا ھے کہ جیسے مین پڑھائی کی خاطر نفاق کر کے ان کی باتیں برداشت کرتا ھوں- میں پاگل ھوتا جا رھا ھوں،،اگر آپ میرے سوال کا جواب دیں گے تو یہ ایک زندگی بچانے والی بات ھو گی،، ایک حدیث تو اللہ کا پاؤں جہنم میں ڈالنے والی ھے،، اور دوسری حضرت موسی علیہ السلام کا مجمعے کے سامنے مادر زاد ننگا ھونا ، دونوں بخاری شریف کی ھیں – ان کی حقیقت کیا ھے؟ 

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،،والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاءِ والمرسلین وعلی آلہ و صحبہ اجمعین و من تبعھم باحسانٍ الی یوم الدین،، امۜابعد !

یہ صرف ایک نوجوان کا مسئلہ نہیں بلکہ ھر دوسرے آدمی کا مسئلہ ھے،،جو بھی سوچ سمجھ رکھتا ھے اور آج کل کے میڈیا سے اس کا واسطہ پڑتا ھے، وہ اس قسم کے حالات سے گزرتا ھے،، جسطرح آج ھمارا نوجوان پریشان ھے ،اسی طرح کبھی یورپ کا نوجوان پریشان تھا،اور جو رویہ آج ھمارے علماء کا ھے وھی رویہ یورپ کے علماء کا تھا، پھر جو انجام یورپ میں دین کا ھوا،،کہ خدا خود اپنے گھر تک مقید ھو گیا،، اور سماج میں اس کا دخل مسترد کر دیا گیا،،یہی معاملہ ھم اپنے نوجوان کے ساتھ کر رھے ھیں،،کہ سوال کرے تو دھتکار دو،، مگر اس کے نتیجے میں نوجوان نسل دین سے غیر متعلق ھوتی جارھی ھے ،، اور بوڑھوں کے سہارے دین کب تک چل لے گا؟

آج بھی اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ھو گا کہ دین صرف مساجد تک محدود ھو گیا ھے، اور ھم چند رسوم  ادا کر کے سمجھتے ھیں کہ ھم نے اللہ کا حق ادا کر دیا ،،اب اللہ ھمارے سماجی معاملات میں دخل نہ دے،،نتیجہ یہ ھے کہ ھم پانچ وقت کے نمازی اور سات وقتہ حرام خور ھیں ! ،،

اس وضاحت کے بعد میں آتا ھوں آپ کے سوالات کی طرف،، حدیث کی کسی کتاب کی ھر حدیث پر ایمان لانا ضروری نہیں،یہ صرف قرآن کا اعزاز ھے کہ اس کی ھر آیت اور ھر حرف پر ایمان لانا ضروری ھے،، احادیث کے ان مجموعوں کا مقام تو ان سابقہ کتابوں کے برابر بھی نہیں کہ جن کا وجود بھی باقی نہیں ،،کیونکہ قرآن نے ان پر ایمان لانے کا تقاضہ اسی شد و مد سے کیا ھے،،جسطرح وہ قرآن پر ایمان لانے کا تقاضہ کرتا ھے،، والذین یؤمنونَ بما اُنزل الیک وما انزلَ من قبلک ( البقرہ) احادیث کے ان مجموعوں میں ھر قسم کی احادیث موجود ھیں جن میں سے کچھ صریحاً قرآن کے خلاف ھیں اور انکی تاویل بھی ممکن نہیں،،سیدھا سیدھا یا تو قران کو مانو یا اس حدیث کو مانو،،بیک وقت دونوں پر یقین ممکن ھی نہیں،،،

مجھے لگتا کچھ یوں ھے کہ جنہوں نے ان احادیث کو اکٹھا کیا ھے،، انہوں نے کبھی ان کو قران پر پیش کرنے کی زحمت ھی گوارا نہیں کی اور آج جو شرح لکھ رھے ھیں،،وہ ادھر ادھر کی ھزار تاویلیں پیش کرتے ھیں،، مگر اس حدیث کو قران کی روشنی میں نہیں دیکھتے گویا قرآن نام کی کسی کتاب کا نہ کبھی نزول ھوا تھا،،نہ وہ اس سے واقف ھیں !!

ایمان کی بنیاد اور منبع اللہ کی کتاب،قرآنِ حکیم ھے،،یہ نبی کے ایمان کی بھی بنیاد ھے اور امت کے ایمان کی بھی ! احادیث ظنی چیز ھیں اور عقائد میں ظن کو کوئی دخل نہیں،ان الظنَۜ لا یغنی من الحقِ شیئاً،، نبی کریم سے خطاب فرماتے ھوئے اللہ پاک نے سورہ شوری میں واضح فرما دیا ھے،،ما کنتَ تدری ماالکتاب ولا الایمانُ ولٰکن جعلناہ نوراً نھدی بہ من نشاء من عبادِنا،،( الشوری 52 ) ائے نبی آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ھوتی ھے اور ایمان کیا ھوتا ھے،لیکن ھم نے اس(قرآن) کو وہ نور بنایا جس کے ذریعے ھم(آپ سمیت 

) اپنے بندوں میں سے جسے چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں،،

آج جب سنت کا نام لیا جاتا ھے تو ھمارا ذھن فوراً بخاری اور مسلم کی طرف منتقل ھوتا ھے،، مگر سوچیں وہ پہلی تین صدیاں جو ان کتابوں کے بغیر گذریں،ان میں جب لفظ سنت بولا جاتا ھو گا تو ان لوگوں کا ذھن کس طرف منتقل ھوتا ھو گا؟ کیا اس وقت سنت تھی ھی نہیں؟ یا لوگ نماز ، روزہ، زکوۃ ،حج،شادی بیاہ،طلاق ،جنازہ، خرید و فروخت سنت کے علم کے بغیر کرتے تھے،، سنت کے بغیر دین کی تکمیل کیسے ھو گئی تھی؟ اس وقت لوگ سنت کے لفظ سے فوراً صحابہؓ کے عمل کی طرف دیکھتے تھے اور اس بات کا احساس صحابہؓ کو بھی تھا کہ ان کا عمل سنت کی نمائندگی کرتا ھے، اور خلفاء راشدین صحابہؓ کو بار بار اس بات کی یاد دھانی کرواتے رھتے تھے کہ تمہارا اختلاف سنت کا اختلاف کہلائے گا لہذا اختلاف کم سے کم کرو ،، یہی وجہ ھے کہ 23 سال نبی کے ساتھ گزارنے والے صاحبین( ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) سے گنتی کی چند حدیثیں مروی ھیں ،،ان کا عمل ھی سنت کی سند ھے،،جس طرح کتاب والے روایت کو صحابی تک پہنچا کر مطمئن ھو جاتے ھیں کہ الصحابۃ کلھم عدول ،،اسی طرح اصحاب الآثار ،عمل کو اصحابؓ تک پہنچا کر مطمئن ھو جاتے ھیں کہ نبی کی سنت کے امین وھی ھیں،،سنت ان میں جاری ھو کر ھی سنت کہلائی،،جو جاری نہ ھو وہ سنت ھوتی بھی نہیں !! پھر حدیث کی کتابوں کی ضروت کیوں محسوس ھوئی اور جمع کرنے والے کس نیت سے جمع کر رھے تھے اور آج انہیں کس نیت سے استعمال کیا جا رھا ھے،،یہ ایک الگ موضوع ھے،جس پر میں ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا ،،مگر حقیقت یہ ھے کہ حدیث کی ان کتابوں سے آپ کو شیعیت سمیت ھر فرقے کی بنیاد میسر ھو گی،، ان کے ذریعے قران کو بھی مشکوک ٹھہرایا جا سکتا ھے،،خود ذات ِ باری تعالی اور نبی کی نبوت پر سوال کھڑے کیئے جا سکتے ھیں،،اور کھڑے کیئے جا رھے ھیں، جن کی وجہ سے نوجوانوں مین اضطراب پایا جاتا ھے،، مگر اللہ رحم فرمائے بہت ھولناک رویہ ھے ھمارے علماء کا،، کاش کہ ان پر بھی اسی طرح تنقید کی جا سکتی جسطرح سیاستدانوں پر کی جاتی ھے تا کہ ان مقدس ھستیوں کا بھی احتساب ممکن ھوتا ،،

!!

 

اب آیئے آپ کی مذکورہ دونوں احادیث کی طرف دونوں احادیث بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں پائی جاتی ھیں،، اللہ کو جہنم میں داخل کرنے والی سورہ ” ق "کی ایت نمبر( 30) کی تفسیر میں اور موسی علیہ السلام کو مجمعے میں ننگا کرنے والی سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 69 کی تفسیر میں !!

علم ِ حدیث میں میرے استاد مولانا سلیم اللہ خان صاحب مد ظلہ العالی نے بخاری کی شرح”کشف الباری عما فی صحیح البخاری "کی 13 جلدیں لکھوائی ھیں جو ان کے دروس کی ریکارڈنگ سے مرتب کی گئی ھیں،، میرے علم کے مطابق علمِ حدیث میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے پائے کا کوئی عالم پاک و ھند میں شاید ھی کوئی ھو،، اپنے تمام شیوخ کا علم ایک سمندر کی طرح آپ میں موجزن ھے،،میں ان کی شرح ھی کو استعمال کرتا ھوں کسی حدیث کی تحقیق کے لئے !!

حدیث کچھ یوں ھے کہ قیامت کے دن اللہ پاک جہنم سے پوچھیں گے کہ ‘” کیا تو بھر گئ ھے "اور وہ جواباً کہے گی ھل من مزید؟ یہاں تک کہ اللہ اپنا قدم اور دوسری حدیث میں اپنا پاؤں(رجل) اس میں رکھ دے گا ،،جس پر اس کے بعض حصے بعض پر چڑھ جائیں گے( جسطرح پسلیاں چڑھتی ھیں) اور وہ گھبرا کر بولے گی ،،بس ،،بس ،،

اب اس حدیث کی شرح میں وہ سب کچھ کہنے کے باوجود جو کہ کہنے لائق بھی نہیں تھا،،مولانا اخر فرماتے ھیں،،سوائے تفویض اور تسلیم کے کوئی رستہ نہیں،،یعنی بات سمجھ نہیں لگ رھی،، مگر ھتھیار ڈالنے اور اندھا دھند ماننے کے سوا چارہ نہیں،،

سابقہ شارحین کا قل نقل کرتے ھیں کہ قدم نام کی کوئی مخلوق اللہ پیدا فرمائے گا،جس کو جہنم میں بھیجے گا تو وہ بھر جائے گی،،پھر اس کو رد کر کے فرماتے ھیں کہ قدم کے علاوہ بخاری میں ھی لفظ رجل بھی استعمال ھوا ھے،،لہذا پاؤں مانے بغیر چارہ نہیں،، پھر ایک قول نقل کرتے ھیں کہ قدم سے مراد قدم صدق،مراد ھے یعنی حضور کو شفاعت کے لئے بھیجا جائے گا اور وہ کچھ بندے نکلوائیں گے تو جہنم چپ کر جائے گی،، یہ اس صورت میں سمجھا جا سکتا ھے جب جہنم بندوں کی زیادتی کا رونا رو رھی ھو،،مگر وہ تو پہلے ھی اور مانگ رھی ھے تو نکلوانے کا مطلب تو سوال گندم جواب چنے ھو گیا،، اس کو بھی رد کر دیتے ھیں،،کوشش کرتے ھیں کہ اللہ کو جہنم سے بچا لیا جائے اور حدیث بھی صحیح رہ جائے ،،مگر بات بن نہیں رھی،،پھر وھی حل کہ چپ کر کے بخاری کی کریڈیبیلٹی اور گڈ ول پر مان لو،، !! یہ ھے ھمارا رویہ حدیث کے بارے میں اور یہ ھے نتیجہ ھمارے علماء پر بخاری شریف کے رعب اور دبدبے کا،،، 

قرآن اور بخاری آمنے سامنے

!!

نہ تو امام بخاری اور نہ ان کے شارحین نے 12 صدیوں میں بخاری کی اس حدیث کو قران کی عدالت میں پیش کیا اور نہ مسئلہ حل ھوا،، میں پہلے عرض کر چکا ھوں کہ ارسطو نے کہا تھا کہ مرد کے 32 دانت ھوتے ھیں اور عورت کے 28 دانت ،، ارسطو کی 2 بیویاں تھیں،،نہ اس نے کبھی ان کے منہ میں انگلی پھیری اور نہ ارسطو کی ھیبت سے کسی اور نے انگلی پھیر کر گننے کی کوشش کی اور سو سال تک یہ  گپ اسی طرح ارسطو کے علم کے رعب اور بھرم پر چلتی رھی،، بخاری کے رعب مین کسی نے بخاری کی حدیثوں کو کبھی قرآن پر پیش کرنے کی جرأت ھی نہیں کی،،اور نہ ھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو قرآن پر پیش کیا ،،قران عقائد کی شاہ کلید یا "ماسٹر کی ” ھے -اللہ کا جہنم میں جانا عقیدے کا معاملہ ھے،،اسے قرآن ھی سے حل کیا جا سکتا ھے،،،

 

سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 98 اور 99 دیکھ لیجئے،، ان آیات میں اللہ پاک کافروں سے فرما رھے ھیں کہ تم اور جن کی تم عبادت کرتے ھو،، سب جہنم کا ایندھن ھو، تم سب اس میں جا کر رھو گے 98 ،، اگر یہ الہ ھوتے تو کبھی جہنم میں نہ جاتے اور وہ اس میں ھمیشہ رھیں گے،99 ( انکم وما تعبدون من دون اللہ حصبُ جہنم،انتم لھا واردون 98،،لو کانَ ھؤلاءِ آلہۃً ما وردوھا ،و ھم فیھا خالدون ،،الانبیاء 99 ) لو جی اللہ پاک بڑے چیلنج کے ساتھ دعوی کر رھا ھے کہ اگر یہ الہ ھوتے تو جہنم میں نہ جاتے ،، اور اگر جہنم پر وارد ھوئے ھیں تو الہ نہیں ھیں،،اب اس فارمولے کو اللہ پر ایپلائی کیجئے ” اگر اللہ جہنم میں جائے گا تو الہ نہیں ھے ،،اور اگر الہ ھے تو جہنم میں نہیں جائے گا،، سارا مسئلہ حل ھو گیا،، بخاری کی حدیث مانو تو اللہ الہ نہیں ھے کیونکہ جہنم میں جائے گا،، قران کی مانو تو کافروں کے معبود تو جہنم جائیں گے کیونکہ یہ ان کے الہ نہ ھونے کی دلیل ھے،، اور انبیاء کو جہنم کے پل پر سے گزار کر جنت میں داخل کیا جائے گا تا کہ ان کی الوھیت کی بھی نفی ھو جائے،، مجرد جہنم پر وارد ھونا بھی الوھیت کی نفی ھے،کجا کہ جہنم میں داخل ھو کر اس کو بھر دینا،، پھر اللہ واحد بھی ھے،،عدد کے لحاظ سے اور احد بھی ھے ھستی کے لحاظ سے یعنی وہ ھماری طرح اجزاء یا پارٹس میں نہیں بنا،، اسکی پوری ھستی ایک جزء ھے،،گویا جائے گا تو پورا جائے گا،،نہیں جائے گا تو پورا نہیں جائے گا،، اگر امام بخاری اس حدیث کو قران پر پیش کرتے تو کبھی اس کو اپنی تصنیف میں شامل نہ فرماتے اور اگر شارحین اس کو قران پر پیش کرتے تو کب کا نکال کر سائڈ پر رکھ چکے ھوتے،،سب نے کچھ یوں کیا ھے گویا کتاب اللہ نام کی کوئی چیز اس امت میں پائی ھی نہیں جاتی ،، اور راویوں کے سلسلے ھی جوڑتے رھے ھیں !

تفسیر میں مودودی صاحب دونوں جگہ دامن بچا کر نکل گئے ھیں ،، ایسا لگتا ھے جیسے ان آیات کی تفسیر میں کوئی حدیث ھی ںہیں،، میں ان کی مجبوری کو سمجھتا ھوں،،وہ پہلے ھی فتوؤں کی زد میں تھے،،منکرینِ حدیث کا ٹھپہ لگوانا نہیں چاھتے تھے ! اصل میں ھوا کیا ھے ؟یہ حدیث موقوف ھے یعنی بات حضرت ابو ھریرہؓ پر آ کر ختم ھوگئی ھے ،اب انہوں نے کس سے سنا ھے یہ واضح نہیں ھے،، اس قسم کی کہانیاں اسرائیلیات میں سے ھیں،، جو لوگ یہود میں سے مسلمان ھو گئے تھے،جیسے حضرت عبداللہ ابن سلام وغیرہ وہ ساتھ اسرائیلیات کے ٹوکرے بھی بھر لائے تھے، اور جب وہ مسلمانوں میں بیٹھے ھوتے تو دین سے متعلق گفتگو میں اپنا پرانا موقف اور مذھبی کہہانیاں بیان کرتے، عام مسلمانوں کے لئے وہ عجیب مگر دلچسپ کہانیاں ھوتی تھیں،، اور یوں وہ ھمارے واعظ مولویوں سے ھوتی ھوئیں ھماری مذھبی کتابوں اور پھر حدیث کی کتب میں جگہ پا گئیں،، حضرت ابو ھریرہؓ جو سنتے تھے بیان کر دیتے تھے،، ،،جید صحابہؓ،حضرت علیؓ ،حضرت عمرؓ حضرت عائشہؓ ان کو ٹوکتے رھتے تھے اور عمرؓ فاروق نے تو ان کو دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اپ نے یہ سلسلہ بند نہ کیا تو میں اپ کو قبیلہ دوس میں واپس پھنکوا دوں گا ! کتاب الصلوۃ میں سجدہ سہو کے بیان میں ایک بڑی مشہور حدیث ھے بخاری شریف کی،، اس میں راوی ھیں حضرت ابو ھریرہؓ ،،فرماتے ھیں کہ نبی اللہﷺ نے ھمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا،،تو ذوالیدین اٹھا ،،اور ،،،،،  اب یہ ذوالیدین حضرت ابو ھریرہؓ کے اسلام قبول کرنے سے بھی بہت پہلے شہید ھو چکے تھے،غالباً غزوہ احد مین،،جبکہ ابو ھریرہؓ ایمان لائے ھیں صلح حدیبیہ کے بعد،،  مگر حدیث میں یوں ظاھر کر رھے ھیں کہ گویا یہ ان کی موجودگی میں واقعہ ھوا،، اس پر تعجب تو سارے محدثین کرتے ھیں،،مگر،، ظاھر ھے یہ بات ان کو کسی اور صحابی نے بتائی ھے کیونکہ واقعہ سچا ھے،، مگر یہ اس بندے کا نام نہیں بتاتے کہ ان کو کس نے بتایا ھے،، یہ تدلیس کہلاتا ھے کہ آپ درمیان والا واسطہ چبا جائیں،، تو اسی طرح وہ اس جہنم والی حدیث میں اگر وہ بندہ بتا دیں تو پتہ چل جائے کہ وہ ھیرو کون تھا جو اللہ کو بھی جہنم میں لے جانے پر تلا ھوا تھا،، بائبل بھری پڑی ھے یہودیوں کے ان عقائد سے،،اللہ کا زمین پر آنا ،یعقوب علیہ السلام سے ساری رات کشتی کرنا پھر ھار جانا اور منتیں کرنا کہ مجھے آسمان پر واپس جانے دو مگر یعقوب کا آرم لاک لگا کر مطالبہ کرنا کہ پہلے مجھے اور میری اولاد کو برکت دو پھر جانے دوں گا،،یہ جہنم والا واقعہ اور موسی علیہ السلام کا ننگا کرنا بھی اسرائیلی کتب کا مواد ھے جو یہاں امپورٹ ھوا ھے،، اور اس حدیث کے راوی بھی ابو ھریرہؓ ھی ھیں،،ا ،، 

اب آئیے دوسری حدیث کی طرف یہ حدیث بھی کتاب التفسیر میں ھے اور حدیث نمبر4521 ھے، اس میں بتایا یہ گیا ھے کہ موسی علیہ اسلام ایک حیادار انسان تھے ،بنی اسرائیل عموماً تالابوں میں ننگے نہایا کرتے تھے ،جیا کہ ھمارے دیہات میں رواج ھے،،مگر موسی علیہ اسلام ھمیشہ الگ سے نہایا کرتے تھے کہ کوئی ان کو دیکھ نہ پائے،، اس پر بنی اسرائیل نے یہ چہ میگویاں شروع کر دیں کہ ان میں عیب ھے،بعض کے نزدیک ان کے خصیوں میں ھوا بھر گئی ھے( ھرنیا ھو گیا ھے) بعض کے نزدیک وہ نامرد ھیں،عنین ھیں وغیرہ وغیرہ،،جس پر اللہ نے ارادہ فرمایا کہ موسی  پر سے اس الزام کو ھٹایا جائے،،اس کا بندوبست یہ کیا گیا کہ موسی علیہ اسلام کپڑے اتار کر نہانے لگے اور کپڑے ایک پتھر پر رکھے،پتھر کپڑے لے کر بھاگ پڑا،،موسی علیہ السلام عصا لے کر اس کے پیچھے دوڑے اور میرے کپڑے میرے کپڑے کہتے جاتے اور پتھر کو مارتے بھی جاتے،یہان تک کہ پتھر اسرائیلیوں کے مجمعے میں جا کر کھڑا ھو گیا، موسی علیہ السلام نے باقی کسر وھاں نکالی اور پتھر کو خوب مارا،،اس دوران بنی اسرائیل نے خوب دیکھ لیا کہ موسی میں کوئی خفیہ امراض نہیں ھیں بلکہ بالکل ٹھیک ٹھاک ھیں،، یہ ھے اس حدیث کا خلاصہ!

پہلے تو عم فہم سے سوچیں کہ یہ واقعہ موسی علیہ السلام کی رسالت کے بعد کا ھے کیونکہ وہ مصر میں شاھی محل میں رھتے اور شاھی حمام میں نہاتے تھے،، مدین سے واپسی کے بعد وہ بنی اسرائیل میں رھنا شروع ھوئے،،  جب آپ مدین سے بیوی ساتھ لے کر آئے تو بچہ بھی ساتھ تھا،یہ وھی بچہ تھا جو وادی مقدس میں پیدا ھوا تھا – بچے کی موجودگی میں کسی کے نامرد ھونے کی افواہ کیسے اڑائی جا سکتی ھے؟ ھر شخص جانتا ھے کہ کچھ لوگ ھر سوسائٹی میں ایسے ھوتے ھیں جو  مجمعے میں ننگا نہانا پسند نہیں کرتے، پھر بجائے اس کے کہ اللہ بے حیاؤں کو سزا دیتا ،،اس نے سزا دی بھی تو حیا دار کو کہ اسے مجمعے میں ننگا کر دیا ،، موسی علیہ السلام کو اتنا مغلوب الغضب دکھایا گیا ھے کہ غصے میں ان کو اگے پیچھے کا ھوش نہیں رھتا تھا ،، ذرا اپنے اوپر لاگو کر  کے دیکھئے کہ کوئی حمام سے آپ کے کپڑے اٹھا کر لے جا رھا ھو تو کیا اپ سوچ سکتے ھیں کہ اپ ننگے اس کے پیچھے دوڑ پڑیں گے؟ کیا عقلِ انسانی نام  کی کوئی چیز نہیں،؟،جب تک یہ قصے مدرسوں میں ھی پڑھا کر دفنا دیئے جاتے تھے ،،سب خیریت تھی مگر اب یہ سب کچھ عام عوام کے ھاتھ لگ گیا ھے،، اب تو جواب دے کے جیو والا معاملہ ھے،، اور یہ صرف ھمارے دین کا نہیں سارے مذاھب کو یہ ھی مصیبت پڑی ھوئی ھے کہ ان کا مذھبی لٹریچر عام ادمی کے ھاتھ لگ گیا ھے،جس کا فیوز مدرسے میں نکالا نہیں جا سکا ،،وہ پلٹ پلٹ کر سوال کرتا ھے  ! پھر ذرا سوچئے کیا کسی کو ننگا کرنا مقصود ھو تو بس اتنا کافی ھے کہ کوئی مشہور کر دے کہ شیخ الحدیث صاحب کو ھرنیا ھے اور شیخ الحدیث بھی اھلِ حدیث ھوں اور وہ تہبند   اٹھا کر سارے  طالبِ علموں کی تسلی کرا دیں کہ یہ ھوائی کسی دشمن نے اڑائی ھو گی؟ اگر یہ بات کسی شیخ الحدیث سے روا نہیں ھے اور ان کے شایانِ شان نہیں ھے تو اللہ کے اولوالعزم رسول،جس کی شریعت پر دنیا 2500 سال تک چلتی رھی اور ھزاروں نبی اس کی شریعت میں مبعوث ھوئے ،اس رسول سے کیسے روا مان لی گئی؟ اور کیا ایک نبی کو ننگا کرنا سارے نبیوں کو ننگا کرنے والی بات نہیں؟ پھر کیا جسمانی بیماری سے کسی کے رتبے میں کوئی فرق پڑتا   ھے ؟ کیا نبی کریمﷺ کو جوڑوں کا درد نہیں تھا؟ اس سے آپکے مقام اور رسالت پر کیا فرق پڑتا ھے،کہ کسی جسمانی بیماری سے دامن صاف کرنے کے لئے رسول کو ننگا ھی کر دیا جائے؟؟ اب آئیے قران کی طرف جو بتاتا ھے کہ حیا انسان کا حقیقی جوھر ھے اور یہ تمدن سے نہیں بلکہ انسانی تخلیق کا جوھر ھے،، اللہ پاک نے جہاں بھی آدم و حوا علہیماالسلام کو وقعہ بیان فرمایا ھے،خصوصی ذکر کیا ھے انکی اس ادا کا کہ انہوں نے شرم سے جنت کے پتوں کو لپیٹنا شروع کر دیا،،پھر اگلی آیت میں خبرادر کیا کہ آدم کی اولاد شیطان تمہیں بھی پھسلا کر تمہارے کپڑے نہ اتروا دے،، پھر فرمایا کچھ لوگ بے حیائی کر کے کہتے ھیں کہ یہ تو ھمارے باپ دادا کرتے چلے آ رھے تھے، اور اگر یہ بے حیائی ھے تو اس کا حکم ھم کو اللہ نے دیا ھے،،اس کے بعد فرمایا،قل انۜ اللہ لا یأمرُ بالفحشاء-أتقولونَ علی اللہ ما لا تعلمون(الأعراف 28) تو اللہ پاک تو فرما رھا ھے کہ وہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا،،یہاں تو بے حیائی کروا کر رکھ دی،، قران کے ساتھ کھلا تضاد ھے یا نہیں؟ پھر آپ قرآن میں بار بار پڑھتے ھیں کہ شیطان نے تقشِ قدم کی پیروی مت کرو، اگر تم نے شیطان کی بات مانی تو وہ تو  بے حیائی کا اور برائی کا حکم دیتا ھے،،یہاں بے حیائی کا حکم شیطان کی طرف سے نہیں اللہ کی طرف سے ثابت کیا گیا ھے،،لہٰذا قران کی مخالفت کی وجہ سے اس حدیث کو نہیں مانا جائے گا،،اور  اس کو ماننا مسلمان ھونے کے لئے ضروری بھی نہیں ھے، اور اس کے نہ ماننے سے بندہ منکرِ حدیث بھی نہیں ھوتا ،جب تک کہ حدیث کے شرعی طور پر ذریعہ قانون سازی ھونے کا انکار نہ کرے !