چشمِ بینا و دلِ زندہ !
اللہ کے رسول ﷺ نے نماز ،روزے ،زکوۃ ،حج کے مسائل کو آخری شکل دے دی ھے ، اب ان میں کسی تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں – اب یہ قیامت تک توقیفی امور ھیں،،
البتہ قرآن کی کونی ” Universal ” آیات کو آپ نے نہیں چھیڑا بلکہ اسے آنے والے زمانے کے لوگوں پہ چھوڑ دیا ،، اور یہ مسلمانوں پر نبئ کریم ﷺ کی شفقت اور آپ ﷺ کی آفاقی حکمت ھے ،، ان کے بارے میں اگر کوئی تفسیر کر دی جاتی تو وہ تفسیر نہایت محدود ھوتی اور مسلمانوں پر کائناتی امور میں تحقیق کا دروازہ بند ھو جاتا ،، حضور ﷺ سے قرآن کی بہت کم تفسیر منقول ھے ،،
قال الله عز وجل : ( سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ) فصلت/ 53.
جب اللہ پاک نے فرمایا کہ ھم انہیں عنقریب آفاق میں اور ان کی جانوں میں اپنی آیات دکھائیں گے یہانتک کہ ان پہ واضح ھو جائے گا کہ فی الواقع اس کائنات کا اور اس میں بسنے والوں کا ایک ھی خالق ھے ،،
تو آج کائناتی رازوں میں جو وحدت اور انضباط نظر آ رھا ھے ،جس کائنات کی قوتیں ایک دوسرے سے Co-operate کرتی نظر آتی ھیں ، اس سے سب پہ واضح ھو گیا ھے کہ اس کائنات کی خالق ایک ھی حکیم ھستی ھے جس نے ھر قانون بنایا ھے اور سارے جاندار بے جان اس کے ضابطوں کے پابند ھیں ،،
اس زمانے میں جب نطفے کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا تو وہ محدود علم کی حد تک تھا ،،مگر آج کے انسان کے لئے نطفے کا ایک قطرہ ایک دنیا ھے جس میں لاکھوں کروڑوں جاندار ھیں ،مذکر بھی اور مؤنث بھی ،،،،،،،،،،،،،،،، بیمار بھی اور صحت مند بھی ،، ڈی این اے ،، جین کی دنیا ،، اس میں بیماریوں کا ٹائم سپیم ،،
جب کہا گیا کہ جو پانی تم پیتے ھو اس کو کبھی غور سے دیکھا ھے ؟
َفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ (68) أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (69)
اس وقت پانی اڑتا اور برستا تھا ، اور یہی بہت بڑا انعام نظر آتا تھا ، اور نظر یہیں تک دیکھتی تھی ،، مگر آج جب ھم پڑھتے ھیں کہ ” کیا وہ پانی جسے تم پیتے ھو ، اسے کبھی دیکھا بھی ھے ؟ تو سوال بگ بینگ تک چلا جاتا ھے ،، وہ مرحلہ تھا جب دو گیسوں کو اس قدر پریشر میں ملایا گیا کہ نہ صرف دو آگ نما گیسیں ،، ایک دھماکے سے جلنے والی اور دوسری جلنے میں مدد دینے والی،، دونوں کو ایک خاص تناسب سے ملا کر آگ بجھانے والا پانی بنا دیا ،، بلکہ وہ پانی پتہ نہیں کتنے سو سال مسلسل برستا رھا ،جو اس انگارہ نما گولے کو ٹھنڈا بھی کرتا رھا،، دریاؤں کا رستہ بھی بناتا رھا ، زمیں سکڑ کر پہاڑ بنتی گئ اور ان پہاڑوں کے درمیان سے پانی راہ بناتا رھا اور سمندر کے پیالے میں جمع ھوتا رھا تا کہ زمین کے اندر کی آگ کو ٹھنڈا رکھے ،، اسی میں مخلوق کی داغ بیل ڈالی ،، اور زمین کی تباھی کا سامان بھی رکھ دیا ،، جب ھم قرآن میں پڑھتے ھیں کہ سمندر دھماکے سے پھٹ جائیں گے، و اذا البحار فجرت ،، تو صحابہؓ کے ذھن میں یہ سوال ضرور ھو گا کہ یہ کیسے پھٹ جائیں گے ،، جب فرمایا گیا کہ ، ،، وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ،، جس دن سمندر تندور کی طرح بھڑکائے جائیں گے تو سوچنے والوں نے سوچا ھو گا کہ پانی کو آگ کیسے لگے گی ،، مگر اب پتہ چلا کہ سمندر بارود سے ھی تو بھرے پڑے ھیں ،، یہ وقتی پانی حقیقت میں آگ ھی آگ ھے ،، ایک دھماکے نے اسے پانی بنایا تھا ، دوسرا دھماکہ گیسوں کا یہ کمبینیشن توڑ دے گا اور سمندروں میں آگ لگ جائے گی ،ھائیڈروجن دھماکے سے جلے گی اور آکسیجن اسے جلنے میں مدد دے گی اور سمندر تندور بن جائیں گے ،، آج اس دھمکی پہ رونگٹے کھڑے ھو جاتے ھیں کیونکہ آج ھم اس دھمکی کی Depth کو سمجھتے ھیں ،،ایک دھماکے نے قوانینِ فطرت بنائے تھے ، جو دھماکہ گیسوں کے کمبینیشن کو توڑے گا وھی دھماکہ قوانینِ فطرت اور زندگی اور موت کے قوانین
بھی تبدیل کر دے گا ،، انسان بغیر کھائے پیئے اسی طرح صدیوں جی لے گا ، جس طرح ھمیں وائرس کے بارے میں معلوم ھے کہ وہ صدیوں بےجان ںطر آ کر رہ سکتا ھے ،مگر وہ جھٹ زندگی کو ایکٹیویٹ کر لیتا ھے ،،،
قال الله عز وجل : ( سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ )
فصلت/ 53.
آج جب ھمیں سورہ الملک میں دھمکی ملتی ھے کہ قل أرأيتم إن أصبح ماؤكم غورا فمن يأتيكم بماء معين،، ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہارا پانی غائب ھو جائے تو بہتے چشموں کا پانی کون لے کر آئے گا تمہارے پاس ؟ تو ھمیں حق الیقین حاصل ھو چکا ھے اور اس دھمکی کی حقیقت ھمیں دکھا دی گئ ھے کہ مریخ سمیت کتنے سیاروں پہ دریا بھی تھے اور سمندر بھی ، بارشیں بھی اور برف بھی ،دریا بھی اور ندی نالے بھی ،، پھر حفاظتی کمبل ھٹانے کی دیر تھی کہ سب بھک سے اڑ گیا ،، جس نے وہ کیا اور وھاں کیا اور اس پر کوئی مقدمہ نہیں بنا وہ یہ سب کچھ زمین پر بھی کر سکتا ھے ،، یہ بھی مریخ کی طرح اس کی ملکیت اور جائے تصرف ھے ،، الغرض کل کی دھمکیاں آج کی حقیقت بن چکی ھیں ،، صحابہؓ کے ایمان کا کمال ھے کہ وہ کائناتی علم میں ھم سے کم تھے مگر خدا سے ڈرنے میں ھم سے ھزاروں گنا آگے تھے ،، جبکہ ھم سب کچھ آج کھلی آنکھوں سے دیکھتے بھی ھیں اور بے خوف بھی ھیں ،، اسی کے بارے میں فرمانِ الہی ھے کہ ،،
افلم یسیرو فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا فانھا لا تعمی الابصار و لکن تعمیٰ القلوب التی فی الصدور ( الحج -46 )
کیا ان لوگوں نے زمین کی سیر نہیں کی ہے تا کہ ان کے دل اس کے ذریعہ حق باتو کو سمجھے۔یا ان کے کان ایسے ہو گئے ہیں کہ جس کے ذریعہ سچی باتوں کو سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے کے اندر ہوتے ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔
اس وقت زمین سے مراد صرف یہ سیارہ تھا مگر آج سارے سیارے ھماری زد میں ھیں ،، جنہیں ھدایت ملنی تھی اسی زمین کو دیکھ کر مل گئ کیونکہ ان کی آنکھیں دیکھتی اور دل بینا تھے ،،مگر آج انسان دوسرے سیاروں میں قیامت بپا ھونے کے بعد کے حالات دیکھ کر بھی بے ھدایت ھیں ،کیونکہ ان کی آنکھیں بظاھر بینا ھیں مگر ان کے دل اندھے ھیں ،،