کوئی ھمیں بتائے ،بھٹکے ھیں ھم کہاں سے
منکرِ حدیث کے تبصرے پہ کمنٹ !!
منکرینِ حدیث ایک الگ مخلوق ھیں ،، مجھے ان کے مغالطے اور چالبازیاں بڑی اچھی طرح معلوم ھیں ، میں ان کی ھر قسم اور نسل سے واقف ھوں ،،اور ان کے بڑے اچھے جواب بھی دے سکتا ھوں ، مجھے 34 سال اس میدان میں ھو چکے ھیں ،، عربی میرے لئے مادری زبان کی حیثیت رکھتی ھے اور میں 40 سال سے عرب سوسائٹی کا حصہ ھوں ،ان کے بچوں کے ساتھ کھیل کر اور ان کی ماؤں سے مار کھا کر ان کے چولہوں کے پاس بیٹھ کر کھا کر جوان ھوا اور اب بڑھاپے کی بارڈر پہ کھڑا ھوں ،، میں کوئی بچہ نہیں کہ جذبات کا شکار ھو جاؤں گا ،، حدیث کی ھمیں اتنی ھی ضرورت ھے جتنی آکسیجن کی جینے والے کو ضرورت ھوتی ھے ،، مگر یہ آکسیجن اپنی جگہ پہ پہنچنی چاھئے ،، آپ آکسیجن کی نالی کسی کے معدے میں گھسیڑ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس کو آکسیجن فراھم کر رھے ھیں ،، ضرورت سے زیادہ چیز زھر بن جاتی ھے ،، آپ مجھے منکرینِ حدیث کا ڈراوہ نہ دیں ،، اور نہ مجھے منکرِ حدیث سمجھیں ، ایک امام مسجد کبھی بھی منکرِ حدیث نہیں ھو سکتا ،، قرآن کو اس کا مقام دیا جائے اور حدیث کو اس کے تابع کیا جائے ،،،،،،،،،،،،،،،،، جو کہ اسلام کے ابتدائی دور کی ترتیب ھے ،کشمیر کے ایک گاؤں میں ایک اوباش نوجوان تھا ،، راجہ قوم کا تھا ،، وہ مجھے اپنی کارستانیاں بتا رھا تھا جبکہ میں 17 سال کا تھا ،، کہ جب کشمیر میں 71 کی جنگ میں گولہ باری چل رھی تھی تو میں لڑکیوں کو ڈراتا کہ سکھ آنے والے ھیں جو عورتوں کو ریپ کریں گے ،، جس سے بہت اذیت ھو گی،، اگر اس سے پہلے کہ تم اس اذیت سے گزرو ،، اگر میرے ساتھ تعلق پیدا کر لو گی تو اس اذیت کو سہنے کے قابل ھو جاؤ گی، واضح رھے اس کا قد کوئی ساڑھے چار فٹ تھا اور قد سے بچہ لگتا تھا ،،،،،،،،، آپ مجھے منکرینِ حدیث کا ڈرواہ دے کر اس راجے کی طرح کا حیلہ نہیں کر سکتے ،، منکرینِ حدیث ،، اخر عملاً منکر قرآن بن جاتے ھیں کیونکہ عمل کے لئے نبی ﷺ کی سنت کا کوئی متبادل نہیں ھے ،، مگر وہ احادیث جو خود قرآن پر حملہ آور ھو جائیں ،جن کا ایک مسلمان کی عملی زندگی یا ایک مسلمان کے ایمان سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ خبریں ھی خبریں ھیں جن کو مان لو تو ایک مسلمان کے پلے کچھ نہیں بچتا ،،،،،،،، اور انکار کر دو تو کوئی نقصان نہیں ھوتا ،، نہ ایمان کا اور نہ عمل کا ،، مثلاً اگر میں یہ نہ مانوں کہ بکری قرآن کی آیت کھا گئ تھی تو وہ صحابہ کے سینوں سے بھی نکل گئ تھی ،، رجم جب سنت سے ثابت ھے تو اس کے لئے ایک آیت گھڑنے کی کیا ضرورت تھی ،، اور جب اس کی عربی شرمناک لگی جو قرآن کے معیار پہ پوری نہیں اترتی تو یہ رائے اختیار کر لینا کہ اللہ نے اس آیت کو واپس لے لیا مگر اس کا حکم باقی رکھا ،،،،،،،،،، دنیا کے گھٹیا سے گھٹیا اور ادنی سے ادنی قانون میں بھی ایسا نہیں ھوتا ،کجا کہ خالقِ کائنات سے اس قسم کے توقع کرنا اور اسے ایمان بنا کر پیش کرنا ،، اسی طرح کی چند اور کہانیاں ھیں ،، جو دودھ میں مینگنی کے مترادف ھیں ،، بس چند ایک ،، جن روایات نے قرآن کو مشکوک کر دیا ،، محمد کی رسالت تک کو داغدار کر دیا ،،،،،، ان روایات کو مانے بغیر بھی دین مکمل اور قابلِ عمل ھے –