میرے ایک دوست نے وضاحت چاھی ھے کہ ” آیت فکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیضُ من الخیط الاسودِ من الفجر ” کو حدیث کے بغیر کیسے سمجھا جا سکتا تھا ؟
میرا جواب تھا کہ ،، ایک شخص کے یہ سمجھ لینے سے کہ اس سے مراد کپڑے سینے والا کالا اور سفید دھاگہ ھے ،،،،،،،،، یہ کیسے سمجھ لیا گیا کہ یہ بات ابوبکرؓ ،عمرؓ ،عثمانؓ ، علیؓ، عبداللہ ابن مسعودؓ ،ابئ بن کعبؓ لوگوں کی سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی،، ؟ اور ایک کم فھم سادے بندے کے سوال کو اصول کیسے بنایا جا سکتا ھے ،جبکہ باقی سارے مدینے کی سمجھ میں آ گیا تھا ،، اصول تو ان کا فھم ھونا چاھئے تھا جنہوں نے آسانی سے سمجھ لیا تھا ،،،،