یہ کہنا کہ جناب احادیث قرآن کے معانی پر مشتمل ھیں لہذا ان کی حفاظت بھی الذکر کی حفاظت کے وعدے میں شامل ھے ایک مغالطے کے سوا کچھ نہیں – احادیث ظنی چیز ھیں ،ان کی صحت و ضعف راویوں کے اسٹیٹس کے ساتھ جُڑا ھوا ھے جو کہ سرا سر گمان پر مبنی چیز ھے ،ان کی حفاظت کا ذمہ ھم بدو بدی شامل کر رھے ھیں ، جس طرح صرف دودھ پلانے والے جانداروں میں سے ھونے کی وجہ سے انسان کی عورت اور چوھیا چمگادڑ کا تقابل کیا جائے ،، حدیثیں انسانوں کی Formation ھے , ان کے مطالب ان کے جملے کی بناوٹ ،، اور اس میں اپنی بات گھسائی گئ ھے ،متضاد حدیثوں سے کتابیں بھری پڑی ھیں ،، کیا حفاظت اسی کا نام ھے ، حفاظت اس کا نام ھے کہ ” لا یأتیہ الباطلُ من بینِ یدیہ ولا من خلفہ ” باطل نہ اس کے فرنٹ ڈور سے داخل ھو سکتا ھے اور نہ بیک ڈور سے ” ھمیں یہی زھر کھلایا جاتا ھے کہ احادیث قرآن کے معانی ھیں لہذا قرآن ھی ھیں ، انسان کی بیٹی اس کی بیوی میں سے ھی ھوتی ھے مگر اس کی بیوی نہیں ھوتی اور بیٹا عورت کے شوھر میں سے ھوتا ھے ، اس کا شوھر نہیں ھوتا ،،،،،،،،،