جبریل امین علیہ السلام المعروف روح القدس و روح الامین ،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی غلام نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ سمیت تمام نبیوں کے محترم المقام استاد ھیں ،،،
1- ان ھو الا وحیۤ یوحی – عَلۜمَہ شَدِیدُ القوی ( والنجم )
2- وإنه لتنزيل رب العالمين نزل به الروح الأمين على قلبك لتكون من المنذرين بلسان عربي مبين وإنه لفي زبر الأولين ( الشعراء 193-194)
3- انہ لقول رسولٍ کریم- ذی قوۃٍ عند ذی العرشِ مکین،، مطاعٍ ثمہ امین -( التکویر 19-20-21)
جبریلِ امین نے قرآن لوح محفوظ سے لکھ کر حجور کو پڑھ کر نہیں سنایا ،، بلکہ جبریل علیہ السلام نے اسے اللہ سے سنا ،، اور نبئ کریمﷺ نے اسے جبریل سے سنا اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے نبئ کریمﷺ سے سنا ،، ھر مرحلے پہ یہ اللہ کا کلام ھی کہلایا ،، لوح محفوظ پہ ثبت ھو کر بھی اور دنیاوی صحیفوں میں ثبت ھو کر بھی ،مگر اس کی اصل سماع ھے ،، کتابت نہیں ،جس طرح کسی گونگے کی تحریر کو کاپی کر کے کسی کو پہنچایا جائے جو کہ خود نہ بول سکتا ھے ،،، قرآن اللہ کا سنا گیا کلام ھے ، لکھی گئ تحریر نہیں ، اس کلام کا پہلا سامع جبریل علیہ السلام ھے اور دوسرے نبئ کریم ﷺ،،،،،،،،،، کلام اللہ انسانوں کے کلام جیسا نہیں جو سر کے کانوں سے سنا جاتا ھے ، اور جو قریب والوں کو زیادہ اور دور والوں کو کم سنائی دیتا ھے ،، بلکہ یہ پوری کائنات میں یکساں سنا جاتا ھے ،، یہ کلام اندر سے سنائی دیتا ھے ،، قلب سنتا ھے ،، کان نہیں ،،نزل بہ روح الامین علی قلبک،،،