قرآن لوحِ محفوظ میں بھی موجودہ ترتیب میں ھی ھے ،، حالات کی ضرورت کے تابع نزول ھوتا رھا،، اور حضور ﷺ لکھواتے رھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کس آیت کے بعد یا پہلے رکھنا ھے ،، بیک وقت کئ سورتیں کھلی ھوتی تھیں ،، حضور ﷺ کو دونوں ترتیبیں لدنی علم کے طور پہ یاد کرائی گئ تھیں ،، جس سال حضورﷺ کا وصال ھوا آپ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ دو دفعہ دورہ کیا ،پہلی دفعہ نزولی ترتیب کے ساتھ اور دوسری دفعہ توقیقفی یا مصحفی ترتیب کے ساتھ ،،، جس طرح جبریل علیہ السلام کا قرآن اللہ پاک کا یاد کرایا ھوا تھا ، اسی طرح نبئ کریمﷺ کا بھی اللہ کی طرف سے پڑھایا ھوا تھا ،، سنقرئک فلا تنسی ،، ھم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ بھولیں گے بھی نہیں ،، حضورﷺ اسی قرآن کو اسی ترتیب کے ساتھ حفظ کروا کر گئے تھے ،، بل ھو آیاتۤ بیناتۤ فی صدورالذین اوتو العلم ،، ، رہ گئ بعد صحابہ کے صحیفون کی تو وہ نہ صرف نامکمل تھے بلکہ اس میں ان کے اپنے تأثرات، شرح وغیرہ بھی لکھی ھوئی تھی،، چونکہ زبان دونوں کی عربی تھی ،، بعد والوں کے لئے مغالطے کا اندیشہ ھو سکتا تھا ،، اس لئے حکمت کا تقاضہ یہی تھا کہ اس قسم کے صحیفوں کو بحق خلافت ضبط کر لیا جائے ،، مثلاً ان میں سے اگر آج کوئی صحیفہ کسی کے ھاتھ لگتا تو بائیبل کی طرح بہت سارے ورژن قرآن کے ملتے،،Quran according to abn e Masood, Quran according to Ibn eabbas وغیرہ ،، ابو موسی الاشعریؓ جیسے بندے کو اگر مغالطہ لگ سکتا ھے کہ انہوں نے احادیث قدسیہ بھی اپنے صحیفے میں لکھ لی تھیں جنہیں صرف ” حضورﷺ کے ” قال اللہ ” کہہ دینے سے انہوں نے وحی متلو سمجھ لیا تھا ،، اور بعد میں کہتے تھے کہ فلاں آیتیں قرآن میں تھیں اب نہیں ھیں ، جبکہ وہ آیتیں ،، ابن عباسؓ کے حوالے سے احادیث قدسیہ کے طور پر صحاحِ ستہ میں موجود ھیں ،، قرآن کے جمع کرنے کی جتنی داستانیں ھیں وہ مجرد صحیفے ضبط کرنے کی حد تک ھے ،، قرآن حفظ کرایا گیا تھا اور اسی توقیفی ترتیب کے ساتھ حفظ کرایا گیا تھا ،، بعد میں کسی کی مرضی اور مشوروں سے ترتیب نیں دیا گیا اور نہ اس طرح جمع کیا گیا ،، اور نہ ھی کتاب کو توقیفی شکل میں محفوظ کیئے بغیر اللہ کے آخری رسول ﷺ تشریف لے گئے ھیں ،،