کچھ اپنے بارے میں !!
میرے اسٹیٹس کا مطلب آپ کو خبردار کرنا تھا کہ ” اس قسم کی خبر کے لئے تیار رھیں کہ ،، بدنامِ زمانہ ، ننگِ اسلاف قاری محمد حینف ڈار جو کہ ،،،،،،،،،،، مسجد کے خطیب تھے ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ھو گئے ،،، مرحوم کو گاڑی کاٹ کر نکالنا پڑا ،،،،،،،
160 سے کم گاڑی مجھ سے چلتی نہیں ،، جب راس الخیمہ جاتا ھوں تو ایک دو کیمرے ضرور لگتے ھیں ،، بہت صبر کرتا ھوں مگر دس منٹ کے بعد کچیچی چڑھجاتی ھے ،فاسٹ ٹریک میں اپنے سامنے گاڑی برداشت نہیں ھوتی،، دن 11 بجے راس الخیمہ سے نکلا ھوں 12 بج کر 50 منٹ پہ ابوظہبی آ کر اپنی مسجد میں نماز پڑھائی ھے ،، کیمرے کے مسیج پیچھے آ رھے ھیں ،، یہ آگ سے کھیلنے والی بات ھے مگر کھیلنے سے باز بھی نہیں آتا ، ڈاکٹر کہتا ھے یہ جیٹیکل ھے ،، کم ھو سکتا ھے ، ختم نہیں ھو سکتا ،، آخری کوشش یہ ھے کہ یہ جو کیمرے کے پیسے ھر ماہ 30 ،40 ھزار روپے چلے جاتے ھیں یہ غریبوں کو دیئے جائیں اجر لیا جائے اور اس کی خاطر نفس کو قابو کرنے کی مشق کی جائے ،، اگر سپیڈ بند سکتی ھے تو کوئی مشورہ دیں کہ یہ کیسے ممکن ھے ؟ پہلے بیوک تھی تو اس میں کروز تھا ،جس کی وجہ سے معاملہ کٹرول میں تھا ،،
1990 کی بات ھے ،پاکستان میری موٹر بائیک کا ایکسیڈنٹ ھوا تھا ،، پٹیوں میں لپٹا ھوا جب گھر پہنچایا گیا تو والدہ صاحبہ نے خوب ڈانٹا ،،، والد صاحب نے تھوڑی دیر تو صبر کیا ،، اس کے بعد والدہ کو ڈانٹ کر چپ کرایا ، اور ٹھوس دلیل یہ دی کہ ” میں بوڑھا آدمی ھوں ،میری ایک سائڈ مفلوج ھے، مگر سائیکل چلاتے ھوئے اگر کوئی سائیکل والا پاس سے گزر جائے تو جب تک اس کو پاس نہ کر لوں مجھے چین نہیں ملتا ۔۔ اس کے پاس تو موٹر سائیکل ھے ،یہ کیسے برداشت کرے گا ؟
اس کے بعد 1996 میں کیری ڈبہ پہاڑی سے گرا جسے میں ھی چلا رھا تھا ،،،،،، مجھے لوگ مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے اور بھائی کو اٹھا کر اسپتال پہچا دیا کہ اسے فوری مدد کی ضرورت ھے ،یہ تو چلو مر گیا ھے اسے بعد میں لے جائیں گے ،، اس دن میں نے موت کو ایک ایک سانس چکھا اور زندگی کو ریورس گئیر لگانے میں تصوف کے زمانے کے پاسِ انفاس نے بہت فائدہ دیا ،، اللہ پاک نے زندگی بچانے کا سبب پہلے سے بنا دیا تھا ،، گاڑی کے گرتے پھر میرے گاڑی کی ونڈ اسکرین کے ٹوٹ کر باھر گرتے وقت جو چیخ نکلی ، اس کے نتیجے میں نظام تنفس کا ردھم درھم برھم ھو گیا ،، میرے پھیپھڑے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرے پڑے تھے ، مجھے آکسیجن کی ضرورت تھی اور ،، آکسیجن اندر آنے گنجائش نہیں تھی ،، پھیپھڑے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باھر دھکیل رھے تھے جبکہ میں سانس اندر لینے کی کوشش کر رھا تھا ، میری نظر تھم گئ تھی ،، دیکھنے میں مردہ لگتا تھا ،مگر میں سب کچھ سن رھا تھا ، میں نے تیزی اور طاقت سے سانس لینے کی بجائے اندر کم سانس لینا شروع کیا اور باھر زیادہ ریلیز کرنا شروع کیا ، ناک سے صرف ماتھے کے اندر تک سانس لیتا اور منہ سے تھوڑی زیادہ نکالتا ،، اس طرح کوئی آدھے گھنٹے میں پھیپھڑے خالی ھوئے تو مکمل سانس بحال ھوا ،، چھٹی حس خبردار کرتی ھے ،، کہ بچوں کی خوشیاں دیکھ لو ، اور باز آ جاؤ ،،،،، مگر،،،،،،،،،،،،،،،،،،