الحمدُ للہ و کفی والصلوۃ والسلامُ علی اشرف الانبیاءﷺ ،،
امۜابعد ! خلیفہ کی اصل خَلَفَ ھے،یعنیsuccessor ،،بعد میں آنے والا،، نبی کریمﷺ تو اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے خلیفۃاللہ فی الارض تھے،،یا داوودُ انا جعلناک خلیفہ فی الارض، یعنی خدائی اختیارات کو اللہ کی اجازت سے نافذ کرنے والا، خلافت کے لفظ کے ساتھ ھمارا رومانس بہت پرانا ھے ،اوراس کا نام سنتے ھی ایک مخصوص ماحول کا تصور پیدا ھوتا ھے ، نعمتوں کی ریل پیل ،، دینےوالے ھیں مگر لینے والا کوئی نہیں ملتا،، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ھوتی،، آپس میں پیارمحبت اور ایسی یگانگی کہ جنت بھی شرما جائے ، کوئی جھوٹا اس خلافت میں نہ پایا جاتاھے،نہ قابلِ برداشت ھے ،کسی کو دنیا کی طلب ھی نہیں ،بلکہ اپنا حصہ بھی دوسروں کو دےدیتے ھیں،، دنیا وھاں مچھر کے پر سے بھی حقیر جانی جاتی ھے ،اور جس کے گھر میں جاتی ھے وہ خوش ھونے کی بجائے پریشان ھو جاتا ھے کہ اس سے جان کیسے چھڑائے،،،،،،،،،،
ھم یہ ساری توقعات ایک خلافت سے رکھتے ھیں،،اس لئے خلافت کے حامی ھیں،، اور دیگر جو بھی نام ھیں،ان کو خلافت کی سوکن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ھیں،، ھم یہ سمجھتے ھیں کہ اگر آج پاکستان میں خلافت نافذ کر دی جائےاور صدر کی بجائے اس عہدے کا نام خلیفہ رکھ دیا جائے تو اچانک ایمانداری اور بے نفسی کی ایسی گھٹا اٹھے گی کہ سیاستدان بغیر طلب کے اپنے اثاثے بیرونِ ملک سے منگا منگا کر کلمہ چوک اور آبپارہ میں غریب عوام میں بانٹنا شروع کر دیں گے ،، کراچی میں قتلِ عام فوراً رک جائے گا اور لوگ ایک دوسرے سے اس طرح رو رو کر معافیاں مانگ رھے ھوں گےکہ شارع فیصل پر ٹریفک جام ھو جائے گا،، کیونکہ سارا مسئلہ جمہوریت کا ھے،، سارے عذاب اس نے ڈال رکھے ھیں،، سارے مسلمانوں کو کرپٹ اس جمہوریت کے نام نے کر رکھا ھے،ورنہ تو یہ بھولے مانس ایسے تھے کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں،، یہ بات کبھی کبھی اخبارمیں بھی پڑھنے کو ملتی ھے ،کہ لڑکی کا رشتہ نہیں ملتا ؟ تو نام بدلی کر کے ” خ” کے حرف سے شروع ھونے والا نام رکھیں ! ان شاء اللہ رشتے ساون کی گھٹاؤں کی طرح امڈ امڈ کر آئیں گے،، مگر نام اتنا تباہ کن ھو سکتا ھے کہ پوری امت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دے،،یہ بات پہلی دفعہ اتنی سنجیدہ لگی ھے،
حقیقت یہ ھے کہ اللہ پاک نے قران میں ایک مسلمان اجتماعیت کے لئے ذمہ داریوں کا تعین بھی کر دیا ھے ،، اور یہ اصول بھی طے کردیا ھے کہ اس اجتماعیت کا سربراہ مسلمانوں کے مشورے سے بننا چاھئے ،، مگر نہ تو حاکم کا نام خلیفہ تجویز کیا گیا ھے،،اور نہ ھی یہ طے کیا گیا ھے کہ یہ مشورہ کس طرح لیاجائے گا،، نہ ھی نبی کریمﷺ نے اس کے لئے کوئی طریقہ فائنل کیا اور نہ ھی صحابہؓ نے طے کیا کہ یہ مشورہ کس طرح ھو گا،، حاکم چننے میں عوام کس طرح شریک ھوں گے،، عوام شریک ھونگے بھی یا نہیں ھوں گے یہ بھی طے نہیں کیا گیا؟؟؟؟ نبیﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا ، یہ مسلمہ بات ھے، اور اس کو کسی دلیل سے رد نہیں کیا جا سکتا،، اب صحابہ نے اپنا حاکم چنا تو اس کا نام خلیفۃ رسول اللہ رکھا،یعنی اللہ کے رسولﷺ کے بعد آنے والا(successor ) اس کے بعد والے کو جب خلیفۃ رسول اللہﷺ کہا گیا تو انہون نے تصحیح کر دی کہ وہ تو ابوبکرؓ تھے،میں خلیفۃ ابوبکرؓ ھوں، اور پھر خلیفہ عمرؓ ،حضرت عثمانؓ ٹھہرے،، گویا یہ تو ترجمہ ھے ” بعد میں آنے والا” کا اس میں تقدس تب ھی آئے گا جب آنے والا مقدس ھوگا،،اب زرداری خلیٖفہ ھے مشرف کا اور مشرف خلیفہ تھا نواز شریف کا، تو کیا آئیں میں تبدیلی کر کے صدر کو خلیفہ کہنے سے،،یہ سارے لوگ مقدس ھو جائیں گے؟ میرا خیال یہ ھےکہ اسلامسٹوں کی اکثریت کا یہ ھی خیال ھے !
ایک مسلمان اجتماعیت ھونی چاھئے،،، اس کاایک حاکم ھونا چاھئے،،، اور وہ حاکم شوری یا مشورے سے چنا جانا چاھئے،،یہ ھیں تین اصول جو قرآن و حدیث سے ھمیں ملتے ھیں،،اب ان میں سے ایک ایک پر بات ھو گی،،تب تک ساتھی بتائیں کہ مشورے کی کیا صورت ھو گی،،حاکم کو چننے میں عوام کو کس طرح شریک کیا جائےگا،یا خلیفہ کا حلقہ انتخاب کیا ھو گا