یری زندگی تو فراق ہے،وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں،رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی ،تو ہمیں سہی
سـرِ طـــور ھو، سـرِ حــشر ھو، ہمــیں انــتظار قــبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی
نہ ھو ان پہ جـو مــرا بس نہــیں کہ یہ عاشــقی ہے ھــوس نہیں
میں اُن ہی کا تھا، میں اُن ہی کا ھوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
جــو ھــو فیصـلہ وہ سـنائیے،اُسے حــشر پر نہ اُٹھـــائیے
جو کریں گے آپ ستم وھاں، وہ ابھی سہی ،وہ یہیں سہی
اُسے دیکھنےکی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ھــزار آنکــھ سے دور ہوں، وہ ھــزار پردہ نشـــیں سہی
پیر نصیر الدین طاب اللہ ثراہ