اب بھی آ جاؤ کچھ نہیں بگڑا !
اب بھی ھم انتطار کرتے ھیں !
درزی سے کپڑا سلاتے ھیں !
نائی سے بال بنواتے ھیں !
کپڑے والے سے کپڑا لیتے ھیں !
سونے والے سے سونا لیتے ھیں !
کباب والے سے کباب لیتے ھیں !
کتاب والے سے کتاب لیتے ھیں !
پھر اللہ والے سے اللہ کیوں نہیں لیتے ؟
ھمیں تو اللہ ملا ھے ،ھم اللہ سے ملاتے ھیں ، جیسا اسے سمجھا ھے ویسا ھی سمجھاتے اور سجھاتے ھیں ، جیسا پایا ھے ویسا بتاتے ھیں ، جس طرح بلائےگئے تھے ،ویسے ھی بلاتے ھیں ، اس کے یہاں گنہگار آئے تو زیادہ ایمرجینسی مچتی ھے جس طرح اسپتال میں زیادہ سیریس مریض آئے تو ھنگامی حالت میں اسے ڈیل کیا جاتا ھے ،
اس کے یہاں گنہگار کے پلٹ آنے پہ خوشی کا سماں ھوتا ھے جس طرح گمشدہ بچہ واپس مل جانے پہ والدین کے یہاں ھوتا ھے – وہ گناہ سے نفرت کرتا ھے گنہگار سے نہیں اس لئے اس کے انتظار میں دروازے کھولے بیٹھا ھے ،، پوچھا گیا یہ انتظار کب تک ؟ جواب ملا اس گنہگار کی آخری سانس تک ! ما لم یغرغر ،، سانس غرغرہ بن جائے تو واپسی کا راستہ بند ھوتا ھے !!