دینی مدارس کی رجسٹریشن کا ٹھیکہ وزارتِ تعلیم کے پاس ہے، ، وزارتِ داخلہ کے تحت ہے، اور نہ ہی وزارتِ اوقاف کے ماتحت۔۔۔ اسلام آباد میں ھمارے دوست سعید طور صاحب اس رجسٹریشن کو عملی شکل دیتے ھیں ، جو جڑواں شہروں کی تمام دکانوں کے لائسنس جاری کرتے ھیں وھی مساجد کا لائسنس بھی جاری کرتے ھیں ،گویا مسجد بھی ایک دکان ھی ھے کسی بنگالی نے سچ کہا تھا ” شرم از ناٹ کمنگ ” فائل اسپیشل برانچ ایس ایس پی آفس پنڈی جاتی ھے،جہاں سے تھانے جاتی ھے اور تھانے کی تصدیق کے بعد رجسٹریشن کی تجدید سالانہ بنیاد پر ھوتی ھے ، البتہ پہلی دفعہ رجسٹریشن کے وقت ناظم یا نائب ناظم اور ایس پی صاحب، سعید طور صاحب بطور ناظم محکمہ انڈسٹریز نیز مسجد کمیٹی کے صدر یا جنرل سیکرٹری کی میٹنگ ھوتی ھے ،جس میں ایس پی صاحب اچھی طرح انٹرویو کرتے ھیں کہ کوئی فرقہ واریت تو مد نظر نہیں ،، چند سو گز کے فاصلے پہ کی حد مقرر ھے کہ اس کے اندر دو مساجد نہیں ھو سکتیں ،، دیہات کی مساجد 3 ٪ بھی رجسٹرڈ نہیں ھیں، لوگوں کو علم ھی نہیں ھے،، البتہ محکمہ انڈسٹریز کی مھر دیکھ کر میرا تراہ ضرور نکلا تھا کہ ،، دائی کی بجائے مکینک آ گیا ھے !!