محمدۤ بشرۤ ،،،،،،،،،،،، لیس کالبشر !
یاقوتُ حجرۤ ،،،،،،،،،،،، لیس کالبشر !
میں ایک سکہ بند بریلوی خاندان سے تعلق رکھتا ھوں ، جس کے دادا جی کا نام پیراں دتہ ھے ، جن کی وفات کے بعد بھی موھڑہ شریف سے عرس کی اطلاع کے کارڈز آتے رھے تھے ،جن کے نزدیک موہڑے شریف کے تین چکر حج کے برابر تھے ،لہذا انہوں نے کبھی حج کی فکر کی بھی نہیں تھی ،، میں کوئی لاتعلق نسلی بریلوی نہیں تھا بلکہ بچپن سے کٹر مذھبی تھا ،بارہ تیرہ سال کی عمر میں بھنگالی شریف پیر عبداللہ شاہ صاحب کی بیعت کی تھی اور ننگے پاؤں ان کے والد کے عرس میں شریک ھونے والوں میں سے تھا ، میں امتحان کی تیاری بھی اپنے گاؤں کے اس مزار پہ بیٹھ کر کیا کرتا تھا جس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وھاں کے مجاور خانوادے سید نیاز حسین شاہ صاحب کے والد کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ وہ ایک قبر تیار کریں مہمان آنے والا ھے اور پھر قبر کی تیاری کے بعد وھاں ایک سر اڑتا ھوا آیا تھا ،یوں وہ مزار ” سر شریف ” کہلاتا ھے ،جہاں بقول کچھ لوگوں کے ایک شیر آتا تھا جو اپنی دُم سے جھاڑو دے کر جاتا تھا ،،طاھر ھے یہ ایک کہانی تھی مگر اس وقت یہ ایک بچے کے لیئے اس کا ایمان اور یقین تھی ، میں نے اپنے بچپن کو عام بچوں کی طرح فوری خرچ نہیں کر لیا تھا بلکہ اسے بڑھاپے کے لئے محفوظ کر لیا تھا ،میں نے اپنی زندگی کی ابتدا بڑھاپے سے کی تھی ، اللہ کی محبت ،، اس کا خوف ،نوافل کی کثرت ،باوضو رھنا ،راتیں مسجد میں گزارنا ،پانی کے کوزے بھر بھر کر نمازیوں کو پیش کرنا ،نعت خوانی ،اذان ،چلہ کشی ،، پر اسرار کتابوں کا مطالعہ اور بتائے گئے طریقوں کی پریکٹس ،ھمزاد کی تسخیر ، بیروں اور مؤکلوں کو قابو کرنا ، بچے کا یقین علماء سے بھی زیادہ ھوتا ھے علماء کو اگر علم الیقین ھوتا ھے تو بچے کو حق الیقین حاصؒ ھوتا ھے ،وہ خطیب کی سنائی گئ کہانی کو بھی حقیقت سمجھ کر ڈرتا اور عمل کرتا ھے ،، ان میں سے کچھ مشقتوں کو دادا جان کی زیر نگرانی کیا ، بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور ان کی نقل کر کر کے کیا تو کچھ سائیں جی کی زیرِ نگرانی حاصل کیا ،، اوپر بڑھاپے سے بچپن کا یہ سفر میری فطرت کے عین مطابق تھا ، بھائیوں کے قتل کے بعد میں ڈی سی راولپنڈی کامران لاشاری صاحب کے دفتر پیش ھوا ،، عرضِ احوال کی تو کہنے لگے آپ کیا چاھتے ھیں ؟ میں نے کہا کہ پستول کا لائسنس چاھئے کہنے لگے اسلحہ برانچ سے فارم لے آئیں ،، میں گیا اور فارم لے آیا انہوں نے بلینک فارم پر دستخط کر دیئے اور کہا کہ اب اسے ایس ایس پی صاحب کے دفتر لے جائیے ،، ایس ایس پی صاحب کے دفتر سے دستخظ ھوگئے تو انہوں نے کہا کہ گوجرخان ڈی ایس پی آفس چلے جایئے ،ڈی ایس پی نے دستخط کر دیئے تو کہا کہ اسے تھانے لے جائیے ،، ایس ایچ او نے دستخط کر دیئے اور کہا کہ اپنے گاؤں کے نمبر دار سے دستخط کرا لیجئے گا ، شام کو میں نے اپنے گاؤں کے نمبر دار محمد حسین مرحوم سے دستخط کرا کر مہر مروا لی اور اگلے دن فارم اسلحہ برابچ میں جمع کرا دیا ،، اس کو کہتے ھیں پڑھاپے سے بچپن کا سفر – عام طور پہ یہ سفر نمبردار سے شروع ھوتا ھے اور تصدیقوں کے مراحل سے ھوتا ھوا مہینوں میں سفر طے کرتا ھے جو میں نے ایک دن میں مکمل کر لیا ،ڈی سی صاحب کے دستخط کے بعد کسی نے تفتیش کی جرأت ھی نہیں کی ،اسپیشل برانچ والوں نے بھی لکھ دیا کہ بندہ جنتی لگتا ھے کوئی اعتراض نہیں ،،
ہمارا گاؤں سارا بریلوی تھا سوائے تین آدمیوں کے ،سب ایک مسجد میں جمعہ پڑھا کرتے تھے اور راوی چین ھی چین لکھتا تھا ،ان تین آدمیوں کے بارے میں پورا گاؤں متفق تھا کہ اگر یہ اسی حال پہ توبہ کیئے بغیر مر گئے تو ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا – محبت حسین اعوان مرحوم ،، ملک حاجی گلنار صاحب مرحوم اور میرے تایا مرحوم !
محبت حسین مرحوم کو اردو نہیں آتی تھی یعنی سمجھ لیتے تھے مگر سوائے پوٹھواری کے اور کوئی زبان بول نہیں سکتے تھے ، قتل کے مقدمے میں جیل کاٹ رھے تھے کہ جیل میں جماعت اسلامی کا کوئی آدمی ٹکر گیا ، چودہ سال کا عرصہ تھا ،اس نے ان کو قرآن کا ترجمہ پڑھا دیا تھا اور مشرف با جماعت اسلامی کر لیا تھا ، ان محبت صاحب نے ھی ھمیں قرآن کے ترجمے کا چسکا لگایا تھا ، میں ان کے پوٹھواری ترجمہ قرآن سے بہت متأثر تھا ،پہلی سورت جو ترجمے سے میں نے ان سے پڑھی وہ سورہ مُلک یعنی تبارک تھی ،،
حاجی گلنار صاحب جو پہلے پہل صوفی گلنار کہلاتے تھے وہ بھی جماعت اسلامی کے بنیادی رکن تھے ،،
خیر اتنی تفصیل اور تمہید کا مقصد یہ ھے کہ آپ کو بتا دیا جائے کہ کسی دیوبندی کے گھر پیدا ھونے والے یا کسی سلفی کے گھر پیدا ھونے والے ، مناظروں اور کتابوں سے بریلویت کو نہیں سمجھ سکتے ، وہ ذرا ذرا سی بات پہ کفر اور شرک کے فتوے لگاتے ھیں ، ،، سلفی تو خیر Selfie ھیں ان سے گلہ ھی کیا , دیوبندی جن میں خود بریلویت کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھے وہ بھی شرک کے فتوے لگاتے ھیں ،، جو بات بریلوی نبئ کریمﷺ کے بارے میں مان کر مشرک ھو جاتے ھیں،، اس سے زیادہ کرامتیں ،اور چمتکار اپنے اکابر کے بارے میں مان کر بھی دیوبندی توحیدی ھی رھتے ھیں قبروں سے استفادہ ،، قبر والوں کو زندہ سمجھنا ، ولیوں کی کرامات کا مرنے کے بعد بھی قائل ھونا ، ان کے اکابر کا بیک وقت کئ جگہ موجود ھونا ، مشکل کشائی کرنا ،ڈوبتے جہاز بچا لینا ، بندے پہ تجلی ڈال کر اس کی شکل اپنے جیسی بنا لینا کہ لوگ فرق تک نہ کر سکیں ، بارش برسا دینا یا برسنے سے روک لینا ، کس نے کیا کھایا ھے بتا دینا ،، رحم مادر میں لڑکا ھے یا لڑکی بتا دینا ،، کسی کے وسوسے سے بھی آگاہ ھو جانا ،، یہ چند کرامتیں ھیں جو آپ کو حکایتِ اولیاء نامی کتاب میں مل جائیں گی جو کتابوں کی ھر چھوٹی بڑی دکان پہ دستیاب ھے اور جس کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی حکیم الامت ھیں ! دیوبندیوں کے لطیفے بھی سات ھیں ،غوث اور قطب بھی ایک جیسے اختیارات کے حامل ھیں ، جس طرح کھل کر بے خوف ھو کر اور وضاحت کے ساتھ تصوف پہ دیوبندیوں نے لکھا ھے ،بریلوی تو اس کے عشرِ عشیر نہیں کر سکے ،،، نقشبندی دیوبندی ھو یا بریلوی ،مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اس کے شجرہ طیبہ کا حصہ ھیں ،، مجھے اس پہ اعتراض نہیں ،، اعتراض اس پہ ھے کہ اتنا سب کچھ کر کے بھی دیوبندی توحیدی کے توحیدی ( یہ تو وھی حساب ھوا کہ جناب یہ جوتی بڑی مضبوط ھے ، دو دفعہ گنڈائی ھے تین دفعہ مسجد سے بدلی کی ھے اور ابھی تک ویسی کی ویسی ھے ) تو جناب دیوبندی ،بریلوی اختلاف بالکل علمی نہیں ھے ،یہ صرف تین چار اکابر کا دفاع ھو رھا ھے ، دیوبندی انہیں قطب منوانا چاھتے ھیں اور بریلوی ان کو ان کی تحریروں کی وجہ سے مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ، یا تو دیوبندی امت کی وحدت کی خاطر اپنے اکابر معصوم سمجھنا چھوڑ دیں اور انسان سمجھ کر سوء تعبیر والے چند الفاظ کی غلطی تسلیم کر دیں اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں تو یہ دونوں آپس میں لڑنے کی بجائے ایک ھو کر مزاروں پر ھونے والی دیگر قباحتوں کو روکنے کی طرف متوجہ ھوں ،، خیر میں عرض کر رھا تھا کہ کتابوں اور مناظروں سے بریلویت کو سمجھنا بہت مشکل ھے ،جو لوگ بریلوی رھے ھیں جتنا وہ بریلویت کو سمجھتے ھیں اتنا کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا ،، میں جب بریلویوں میں پائی جانے والی بعض چیزوں کی مخالفت کرتا ھوں تو دیوبندی بن کر نہیں کرتا کہ دیوبندیوں کا بھڑکایا ھوا بریلویت پہ ٹوٹ پڑتا ھوں ،، خیر کسی نے کہا تھا کہ خلوص و عقیدت ھو بریلویوں والی عقیدہ ھو سلفیوں والا ، علم ھو دیوبندیوں والا اور تربیت ھو جماعتِ اسلامی والی تو ایک مکمل مسلمان تیار ھو جاتا ھے ،،

محمدۤ بشرۤ ،،،،،،،،، لیس کالبشر !
یاقوتُ حجرۤ ،،،،،،،،، لیس کالحجر ! پارٹ 2
عام طور پہ ھمارے خطیب حضرات کی جانب سے جو آیتیں ردِۜ بریلویت میں کوٹ کی جاتی ھیں وہ کچھ یوں ھیں ،، قل انما انا بشرۤ ” مثلکم ” کہہ دیجئے کہ میں بشر ھوں تمہاری مثل ،،،،،،، مگر یہ تحریفِ قرآن ھے ،، آدھا جملہ بول کر قرآن کے منشا کو پلٹ دینا ،یحرفون الکلم عن مواضعہ کی مانند ھے ، جس طرح کوئی لا الہ کو کوٹ کر کے دھریت ثابت کر دے کہ کوئی خدا ھے ھی نہیں اور الا اللہ کو کھا جائے ،، جیسے لا تقربوا الصلوۃ سے نماز کی ممانعت ثابت کر دے اور و انتم سکاری کو کھا جائے !
اگر تو کفار یہ کہہ رھے ھوتے کہ حضورﷺ غیر معمولی انسان ھیں ،، وہ کھاتے پیتے نہیں ، بول وبراز سے بھی پاک ھیں ،جب جہاں جی چاھے چلے جاتے ھیں ،، غائب بھی ھو جاتے ھیں ،،پھر تو یہ آیت اس طرح درست لگتی ھے کہ ” اے نبی ﷺ ان سے کہہ دو کہ میں کوئی غیرمعمولی انسان نہیں تمہارے جیسا بشر ھوں ،،
جب پورا قران بھرا پڑا ھے کہ کافروں کا اعتراض ھی یہ تھا کہ ، ان انت الا بشرۤ مثلنا ،، نہیں ھو تم مگر بشر ھمارے جیسے ،، ان ھو الا بشرۤ مثلکم یاکل مما تاکلون و یشرب مما تشربون ،، نہیں ھے وہ ” جس کے پیچھے تم لگ گئے ھو ” مگر بشر تمہاری طرح ،، کھاتا ھے وہ جو تم کھاتے ھو ،اور پیتا ھے وھی جو تم پیتے ھو ،، ولئن اطعتم بشرۤ مثلکم انکم اذاً لخاسرون ،، اور اگر تم نے اطاعت کی اپنے ھی مثل بشر کی تو تم یقیناً خسارے سے دوچار ھو جاؤ گے ،،
اب ذرا سا غور فرما لیجئے کہ پھر انہی کافروں کو یہ کہنا کہ ” بشر ھوں مانند تمہاری ” ایک مذاق نہیں بن جاتا اگر اس کا مطلب وھی لیا جائے جو 99٪ مولوی لیتے ھیں ؟
اصل میں "قل انما انا بشرۤ مثلکم ” کافروں کا قول کوٹ کیا گیا ھے ، جس کا جواب آیت کے اگلے حصے میں دیا گیا ھے ،، خطیب کافروں کا قول تو کوٹ کرتے ھیں اللہ کا قول بنا کر اور اسے استعمال کرتے ھیں توحید کے نام پر ،، کہا یہ گیا ھے کہ تمہاری یہ بات بالکل درست ھے کہ میں بشر ھوں مانند تمہاری ” یوحی الی ” مگر تم عقل کے اندھے غور نہیں کرتے کہ مجھے غیر معمولی اور تم سے افضل اور وکھرا بنا دیا ھے وحی نے ،، وحی کے بعد میں تمہاری مانند نہیں ھوں یوحی الی ،مجھ پر وحی آتی ھے میں اللہ کا رسول اور نمائندہ بن گیا ھوں ،، اب میں حکم دونگا اور تم سمعنا و اطعنا کہو گے ، اللہ پاک نے تو سورہ الحجرات میں صحابہؓ تک کو خبردار کیا ھے کہ ” واعلموا ان فیکم رسول اللہ ” اچھی طرح پلے باندھ لو تم میں اللہ کے رسول ﷺ ھیں ،،، یہ تمہارے بھتیجے ھو کر رشتے میں تم سے کمتر ھو سکتے ھیں ، تمہارے داماد ھو کر رشتے میں تم سے کمتر ھو سکتے ھیں ،مگر تم انہیں محمد کہہ کر نہیں پکار سکتے ،، یا رسول اللہ کہہ کر بلا سکتے ھو،، لہذا حضرت عباسؓ اور حمزہؓ چچا ھیں مگر اسلام کے بعد ان کے منہ سے اے محمد ، یا محمد کا لفظ کسی نے نہیں سنا ،ابوبکرؓ سسر ھیں اور باپ کی جگہ ھیں ، عمرؓ سسر ھیں اور باپ کی جگہ ھیں نام لے کر پکار سکتے تھے مگر تاریخ اور ذخیرہ احادیث میں ایک جملہ نہیں ملتا کہ ان دونوں نے نام لے کر نبیﷺ کو پکارا ھو ،، ھمیشہ یا رسول اللہ یا نبی اللہ ﷺ کہہ کر پکارا ،،جب حضورﷺ صحابہ جیسے نہیں اور ابوبکرؓ و عمرؓ نبی جیسے نہیں تو کوئی مولوی اٹھ کر کہہ دے کہ میرے جیسے تھے تو توھین نہیں تو اور کیا ھے ؟ اللہ تو صحابہؓ کو خبردار فرما رھا ھے کہ نبی ﷺ کے بلانے کو ایک دوسرے کے بلانے جیسا مت سجھ لینا ، ان کا بلانا اللہ کا بلانا ھے ، جس حال میں ھو اگرچہ نماز پڑھ رھے ھو نبیﷺ کی پکار سنو تو اللہ اور رسول ﷺ کی پکار پر لبیک کہو نبی کا کام پہلے مکمل کر کے پھر نماز پوری کر لو ،، لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ..( النور 63 )
يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم واعلموا أن الله يحول بين المرء وقلبه وأنه إليه تحشرون ( الانفال 24 )