غالباً 1977 میں فلم ” کنوار باپ ” کا ایک کلپ دیکھا تھا ، جس میں محمود اپنے مندر سے اٹھا کر پالے گئے لے پالک بیٹے کو کہ جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا ،ظاھر ھے یہ محبت خون کی تو تھی نہیں ، یہ ترس اور پالنے کی محبت تھی ،، پالنے کی محبت پیدا کرنے کی محبت سے زیادہ طاقتور ھو تی ھے ،
اتفاق سے وہ بچہ پولیو کا شکار ھو جاتا ھے ،مجھے اس کے لنگڑا یا معذور ھونے کی اصل وجہ معلوم نہیں مگر یہ پتہ ھے کہ وہ بچہ اس کلپ میں تقریباً دس بارہ سال کی عمر کا دکھایا جاتا ھے ،، وہ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیتا ھے اور محمود کے بار بار اور زار و قطار روتے ھوئے حوصلہ دلانے والے نعروں کے باوجود پچھڑتا جاتا ھے ، ،، آخر محمود سے اس بچے کی فریاد کناں نظریں اور درد دیکھا نہیں جاتا وہ تماشائیوں کی بھیڑ میں سے چھلانگیں لگاتا ھوا میدان میں کود پڑتا ھے اور اس بچے کو اٹھا کر خود دوڑنا شروع کر دیتا ھے اور سب سے آگے نکل جاتا ھے ،،مگر ظاھر ھے یہ ایک فاؤل پلے تھا ،اس بچے کو ٹرافی نہیں دی جا سکتی ھے ،، مگر عرض صرف اتنی ھے کہ جس سے محبت ھوتی ھے اس کی ھار برداشت نہیں ھوتی ،، اس کا خسارہ برداشت نہیں ھوتا ، انسان اپنی ٹانگیں اس کو دے دیتا ھے یعنی اس کی ٹانگیں بن جاتا ھے جس طرح اس کلپ میں محمود نے اپنی طاقت اس محبوب بیٹے کو دے دی ! پڑھنا اور دیکھنا دو الگ چیز ھیں ،، جن لوگوں نے وہ منظر دیکھا ھو گا وہ جانتے ھیں کہ اس وقت کیا کیفیت اور ماحول ھوتا ھے ،دیکھنے والوں کی آنکھیں برسات کی طرح برس رھی ھوتی ھیں ! اللھم لا یأتی بالحسناتِ اِلۜا انتَ ولا یدفع السیئاتِ الاۜ انت ، ولا حول ولا قوۃ الا بِک !
اے اللہ ھم نیکیاں کرتے نہیں بلکہ تُو کراتا ھے ، اور ھم گناھوں سے بچتے نہیں بلکہ تُو بچاتا ھے ،ھم میں نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ھے اور نہ نیکی کرنے کی قوت ھے مگر اللہ ھی کی توفیق سے !!!
جس نے میرے دوست کو ستایا میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتا ھوں ، بندہ میرے فرض کردہ اعمال سے جو کہ مجھے محبوب ھیں سب سے زیادہ میرا قرب پاتا ھے ، پھر وہ ان نیکیوں میں مزید بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ھے تو میرے اتنے قریب ھو جاتا ھے کہ میرا محبوب بن جاتا ھے اور جب وہ میرا محبوب بن جاتا ھے تو پھر میں اس کیا سماعت بن جاتا ھوں سے سے وہ سنتا ھے ، میں اس کی بصارت بن جاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ھے ، اس کا ھاتھ بن جاتا ھوں جس سے وہ گرفت کرتا ھے ،میں اس کے چلنے کی قوت بن جاتا ھوں جس سے وہ چلتا ھے ، وہ مجھ سے جو مانگتا ھے میں یقیناً اسے دیتا ھوں اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ھوں ، میں اس کی بھلائی کے لئے اسے موت دیتا ھوں تو موت اسے ناپسندیدہ لگتی ھے اور مجھے اسے موت دینے میں بڑا تردد ھوتا ھے اس سے زیادہ تردد مجھے کسی بات پر نہیں ھوتا ،، اسے موت ناپسند ھوتی ھے جبکہ مجھے اس کی طویل عمری کی مصیبت ناپسند ھوتی ھے !
((مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ))