بنو قریظہ کا معاملہ یہ تھا کہ یہ مسلسل بدعہدی کے مرتکب ہوئے تھے اور جنگ خندق میں انہوں نے مسلمانوں پر پیچھے سے حملے کا فیصلہ کیا جبکہ سامنے کفار تھے۔ اور عملاً بچوں اور عورتوں والے خیمے پہ حملے کے لئے کوشش بھی کی ، ان کا جاسوس حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب کے ھاتھوں قتل ھوا تو یہ ڈر گئے کہ شاید یہاں بھی مسلم فوج موجود ھے اور اللہ نے ان کے دل میں رعب ڈال دیا۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ جنگ سے فارغ ہوئے تو ان کا قلع قمع کرنے کا ارادہ فرمایا۔ جب یہ لوگ مغلوب ہوگئے تو انہوں نے خود درخواست کی کہ ہمارے سردار سعد جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے جو صحابی تھے، ان کی تورات کے مطابق فیصلہ کیا کہ جو عورتیں اور بچے ہیں انہیں غلام بنالیا جائے اور لڑنے کے قابل مردوں کو قتل کردیا جائے تاکہ یہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ اسی بنا پر ان کے لڑنے کے قابل لوگو ں کو قتل کردیا گیا۔ احادیث نیچے دے رہاہوں ۔
باقی جنگ میں بھی نان کمبیٹنٹ یعنی جو لوگ جنگ میں براہ راست شریک نہ ہوں ان کا قتل ممنوع ہے اور ان میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ حدیث بخاری ہی میں ہے لیکن خراسانی کو نظر نہیں آئے گی نیز طالبان نے جن کو مارا ہے کیا وہ گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب بڑے بچے تھے؟ اس میں تو عورت بھی مری ہے جو پرنسپل ہے :
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 282 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0
اسحاق بن ابراہیم ابواسامہ عبیداللہ نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی جہاد میں ایک قتل شدہ عورت دیکھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت فرماد ی۔
بنو قریظہ سے متعلق واضح طور پر ہے کہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنایا جائے گا۔ جیسا کہ اس حدیث میں آتا ہے:
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 101 حدیث مرفوع مکررات 11 متفق علیہ 9
ابوبکر بن ابی شبیہ، محمد بن علاء ہمدانی، ابن نمیر، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غزوہ خندق کے دن قریش کے ایک آدمی کا تیر لگا جسے ابن عرقہ کہا جاتا تھا اس کا وہ تیر بازو کی ایک رگ میں لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اس کے لئے ایک خیمہ نصب کروا دیا تاکہ پاس ہی ان کی عیادت کر سکیں پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس آئے اور ہتھیار اتارے غسل فرمایا تو جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں آئے کہ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار دیئے ہیں، اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہ اتارئیے بلکہ ان کی طرف نکلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہاں، جبرائیل علیہ السلام نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر(قلعہ سے ) اترنے پر رضا مندی ظاہر کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فیصلہ کو سعد کی طرف بدل دیا تو انہوں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑائی کرنے والے کو قتل کر دیں اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیں اور ان کے مال کو تقسیم کر لیں۔
بنو قریظہ سے متعلق دوسری احادیث
یہ
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 309 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0
سلیمان شعبہ سعد ابوامامہ بن سہل بن حنیف حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سعد بن معاذ کی ثالثی پر جب بنو قریظہ رضامند ہو کر نیچے اترے آئے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلوایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی مقیم تھے وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے اور جب وہ نزدیک آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سردار کو اتارنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نشست کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم پر قلعوں سے اتر آئے ہیں سعد نے جواب دیا ان میں سے جو لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور بال بچوں کو قید کرلیا جائے اس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد! تم نے فرشتہ کے حکم کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1345 حدیث مرفوع مکررات 0 متفق علیہ 0
زکریا بن یحیی ، عبداللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ سعدؓ کو جنگ خندق میں حبان بن عرفہ ایک قریشی نے تیر مارا جو کہ ہفت اندام کی رگ میں لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تاکہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ خندق سے واپس آئے ہتھیار اتارے غسل کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آ گئے اور اپنے سر سے گردو غبار دور کر رہے تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار دیئے اللہ کی قسم! میں نے ابھی تک نہیں کھولے چلئے بنی قریظہ کی طرف چلیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کر بنی قریظہ کو گھیر لیا آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو کر بنو قریظہ قلعہ سے اتر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سعدؓ جو فیصلہ کردیں منظور کرلو پھر سعد آئے اور انہوں نے کہا کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جو لڑائی کے لائق ہیں ان کو قتل کردیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے انہیں لونڈی غلام بنایا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخمی ہونے کے بعد دعا کی کہ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھ کو کسی قوم سے اور خصوصا اس قوم سے جس نے تیرے رسول کو جھوٹا کہا اور مکہ سے نکال دیا لڑنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں اے اللہ! میں جانتا ہوں کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی ختم کردی پھر بھی اگر کوئی لڑائی باقی ہو تو مجھے تو زندہ رکھ تاکہ تیری راہ میں میں ان سے جہاد کروں اور اگر تیری طرف سے لڑائی کا سلسلہ بند کردیا گیا ہو پھر میرے زخم کو جاری کردے تاکہ میں اسی میں شہید ہو جاؤں۔چنانچہ ان کے سینہ سے خون جاری ہوگیا جو ڈیرہ سے بہ بہ کر مسجد میں آ رہا تھا لوگ ڈر گئے اور بنی غفار سےپوچھنے لگے کہ یہ تمہارے خیمہ سے کیا بہ بہ کر آ رہا ہے پھر معلوم ہوا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون بہ رہا ہے آخر وہ اسی میں فوت ہو گئے۔
ان احادیث میں کہاں لکھا ہے کہ جو بچے بڑے ہیں انہیں ماردو۔ یہاں لکھا ہے جو لڑنے کے قابل ہیں انہیں ماردو یہاں بچوں کا لفظ نہیں۔ ممکن ہے کسی اور طرق میں ہو لیکن صحیح طروق یہی ہیں۔