دین کی دعوت نہایت سادہ ھے کیونکہ یہ پہلے ھلے میں سادہ لوگوں میں ھی نازل ھوئی تھی ،فلسفیانہ موشگافیاں اس میں کنفیوژن تو پھیلا سکتی ھیں مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں ،، دین کی دعوت فرد کے لئے ھے ،اور فرد ھی دین کا مخاطب ھے ،،نظام یا سسٹم تو اس کے اھداف کو حاصل کرنے کے لئے اس کا مددگار بنتا ھے یعنی نظام مقصد تک پہنچے کا ذریعہ ھے ،مقصد نہیں ھے ،، جب تک مقاصد کا تزکیہ نہیں ھو اور لوگ اپنی ترجیحات نہیں بدلیں گے کچھ نہیں بدلے گا، اور ترجیحات بدلنے پر لوگوں کو آمادہ کرنے کے لئے محنت اور صبر کی ضرورت ھے، حضرت نوح علیہ السلام 950 سال تک اسی کام میں جُٹے رھے ،، اگر آپ کی منزل دنیا ھی ھے تو پھر آپ اسلام کے نام پر ایک سسٹم بنا کر اسے فیل کر دیں گے اور یوں اسلام کے ساتھ لوگوں کا رومانس ختم ھو کر رہ جائے گا ،، اور جو آخری امید تھی وہ بھی ختم ھو جائے گی ، آپ کو آفریدی کے آنے تک امید ھوتی ھے کہ بس ھم میچ جیت لیں گے ،بلکہ کچھ لوگ تو اپنے کھلاڑی کے آؤٹ ھونے کی دعا کرتے دیکھے ھیں تا کہ آفریدی آئے ،، بس جب آفریدی آ کر پہلی بال پہ آؤٹ ھو جائے تو پھر وہ گالیاں دیتے ھوئے اٹھ کھڑے ھوتے ھیں اور اس میچ سے ان کا رومانس ختم ھو جاتا ھے -ایک بندے کی منزل سینما یا بازارِ حسن ھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ جس ٹیکسی کے ذریعے وہ جا رھا ھے اس کے اندر آیت الکرسی لٹکی ھوئی ھے اور باھر ” ربا تُوں راضی تے سارا جگ راضی ” لکھا ھوا ھے ؟ اور اگر اس کی منزل بیت اللہ کا حج ھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ وہ ایک گدھے کے ذریعے وھاں پہنچتا ھے ؟ اس لحاظ سے تبلیغی جماعت کا کام نہایت اھم ھے ، یہ تذکیر کا کام ھے ،مسلمانوں میں تعلیم و تذکیر ھوتی ھے تبلیغ تو غیر مسلموں کو کی جاتی ھے ، علماء منبر کو افراد کی ذھنی و ایمانی تعلیم و تربیت کے لئے استعمال کریں نہ کہ فرقہ واریت اور اپنے مسالک کی ترویج کے لئے ،جبکہ عوام دعوت و تذکیر کے کام میں جُٹ جائیں تا کہ ایک صالح معاشرہ قائم ھو، نبئ پاک صالح معاشرہ دے کر گئے تھے جس نے کام کو آگے بڑھایا تھا ،، ایک بدبودار معاشرے کو کولون اسپرے کر کر کے کب تک خوشبودار بنا کر پیش کیا جاتا رھے گا ؟ دین کے 99٪ تقاضے تو افراد سے ھیں اور وہ انہیں پورا کر سکتے ھیں ، باقی جو ایک فیصد ھیں وہ رہ بھی گئے تو افراد سے پوچھ نہیں ھو گی کیونکہ ان کا افراد سے تقاضہ بھی نہیں کیا گیا ،، پہلا مرحلہ ھے ،، اے ایمان والو تمہارے ذمے تمہارا اپنا آپ ھے ، دوسرا گمراہ بھی ھوا تو وہ تمہارا نقصان نہیں کر سکتا اگر تم ھدایت پر ھو "یا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم إلى الله مرجعكم جميعا فينبئكم بما كنتم تعملون ( المائدہ 105 ) اگلا مرحلہ ھے اے ایمان والو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اھل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ھیں ( التحریم )
جہاد بمعنی قتال تو ریاست کے قیام تک خود نبئ کریمﷺ پہ بھی فرض نہیں کیا گیا تھا ،، مگر جہاد بمعنی دعوت الی الخیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پہلے دن سے موجود ھے اور قیامت تک جاری رھے گا ،کیونکہ دین کی اصل دعوت و تبلیغ ھے ،، قتال اس راہ کے روڑے اور رکاوٹیں ھٹانے کے لئے ھے ،، قتال کے بغیر بہت سے نبی ملتے ھیں مگر دعوت کے بغیر کوئی نبی نہیں گزرا ، و ان من امۃٍ الا خلا فیھا نذیر ،، مگر یہ بات سچ ھے کہ جن علاقوں تک نبی کریمﷺ کی دعوت پہنچ چکی تھی ،وھاں تک صحابہؓ نے قتال کو پہنچایا ،، صحابہ کا جہاد بمعنی قتال اور تجارت دو وجوھات کی وجہ سے نکلنا تو ثابت کیا جا سکتا ھے ،مگر وہ تبلیغی جماعتوں کی صورت کبھی نہیں نکلے ،، یعنی نبئ کریمﷺ کے بعد ،، جہاں بھی وہ گئے تجارت کے لئے گئے اور اپنے عمل سے لوگوں کو دین کی طرف مائل کیا ! آج مسلمان پھر دعوت کے مرحلے پہ کھڑے ھیں ، جہاں لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے اور لوگوں کی پسند ناپسند کو تبدیل کرنے کا مرحلہ ھے۔لوگ بدلے تو سماج بدلے گا سماج بدلا تو حکام بھی بدلیں گے ،، لوگ خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں صرف سوئچ تبدیل کر کے روشنی کرنا چاھتے ھیں جبکہ یہاں پوری وائرنگ ھی جل چکی ھے !