ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ نہ امام مالکؒ ھوتے تھے اور نہ امام ابو حنیفہؒ ،نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ امام احمد نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ امام مسلم ، نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ امام ترمذی ،، نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ابوداؤد !

اور دین تب بھی مکمل تھا !

ھے ناں تعجب کی بات ؟

بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟ اس وقت کے لوگ ھاتھ کہاں باندھتے ھوں گے ؟ یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں !
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و جنازے بھی ھو رھے تھے ! پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ بغیر کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے !
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی ! اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے !

سب سے بڑا ون ملین ڈالرز سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے ! مثلاً وھابی، پرویزی،نیچری ، غامدی، مودودی وغیرہ وغیرہ !!

ذرا سوچئے !!