سنت اور حدیث !

نہ تو سنت کوئی نیا لفظ ھے اور نہ ھی حدیث کوئی نئ بات ھے !

سب سے پہلے اللہ پاک نے اپنے کلام اور کام کے لئے یہ دونوں الفاظ استعمال فرمائے ھیں ! یعنی مسلسل ایک ھی قسم کے عمل اور رد عمل کو سنت قرار دیا ھے اور اس کے غیر مبدل ھونے کی بات کی ھے ” سنۃ اللہ التی قد خلت فی عبادہ ( الم‍‍ؤمن 85 ) سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل و لن تجد لسنۃِ اللہ تبدیلا ( الاحزاب 62 ) ھل ینظرون سنت الاولین؟ فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا و لن تجد لسنۃ اللہ تحویلا ً( فاطر 43 ) سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلاً ( بنی اسرائیل 77 )

ان آیات میں اللہ کی اس سنت کا ذکر ھے جو تمام رسولوں کے زمانے میں لوگوں کے کرتوتوں پر حرکت میں آتی رھی ھے اور انہیں کبھی پانی تو کبھی بجلی،، کبھی طوفان تو کبھی زلزلے سے نسیاً منسیا کرتی آئی ھے اور کسی رسول کے زمانے میں بھی اس بھی تبدیلی اور تحول نہیں ھوا ،، اسی طرح اس لفظ کو ان ھی معنوں میں نبیوں اور ان کی امتوں کے لئے بھی استعمال فرمایا گیا ھے ” یرید اللہ لیبین لکم و یھدیکم سنن الذین من قبلکم ” ( النساء 26 ) اللہ چاھتا ھے کہ تمہارے لئے کھل کر بیان کرے اور تمہیں سجھائے طریقے ان کے جو تم سے پہلے تھے !

اب نبیﷺ کے لئے بھی یہ نبی ﷺ کے کام پر ھی بولا جائے گا ! نبی ﷺ کا حکم ،،حکم ھی ھو گا اور اس پر عمل واجب ھو گا ،، مگر اسے حکم ھی کہیں گے سنت نہیں ! وہ استثناء اور جواز تو ثابت کرے گا مگر سنت کو ثابت نہیں کرے گا ! کلام کے لئے لفظ حدیث ھے اور کام کے لئے لفظ سنت ھے،،ان دونوں کو گڈ مڈ کر دینے سے ھم سینس آف ڈایریکشن کھو بیٹھے ھیں،، ابو داؤد کھولئے اور ایک ھی کام مثلاً وضو یا غسل یا نماز کے بارے بھی متضاد و متناقض احادیث موجود ھیں،، یہ کیسی سنتیں ھیں جو ایک فرقے کو مشرق کی طرف دوڑاتی ھیں تو دوسرے کو تھپکی دے کر مغرب کی طرف بھیجتی ھیں،،تیسرا فرقہ حدیث ھاتھ میں پکڑے شمال کی طرف بگٹٹ دوڑا جا رھا ھے تو چوتھا فرقہ جنوب کی طرف سے تھکا ماندہ واپس آرھا ھے اور ھاتھ میں اس کے بھی حدیث ھے !

لفظِ حدیث بھی اللہ نے اپنے لئے استعمال فرمایا ھے مگر اپنے کلام کے لئے ؟

و من اصدق من اللہ حدیثاً ( النساء 87 ) اللہ نزل احسن الحدیثِ کتاباً متشابہا مثانی تقشعر منہ جلودالذین یخشون ربھم ثم تلین جلود ھم و قلوبھم الی ذکراللہ ( الزمر 23 )

نیز نبی پاک ﷺ نے بھی اللہ کے کلام کو ھی اللہ کی حدیث فرمایا ھے،ان اصدق الحدیثِ کتاب اللہ ( سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ھے ) حدیث ترجمہ ھی گفتگو اور کلام ھے اور سنت کا مطلب ھے متواتر غیر مبدل طریقہ ھے ،، اور طریقہ عمل ھے !بعض نے بزرگوں نے جو اضافی معنی داخل فرمائے ھیں یہ ان کی سخاوت ھے،مگر یہ سخاوت امت کو کافی مہنگی پڑی ھے !

اللہ کے کلام اور اس کی سنت کا تجزیہ کرتے ھوئے چلتے ھیں کہ جو قران سے واضح کیا گیا ھے ،اس کی قرآن میں عملی صورتیں کیا کیا ھیں !
اللہ کی حدیث ھے راوی بھی دونوں قوی ھیں جبرائیلِِ امین اور محمد الامین صلی اللہ علیہ وسلم ! کہ اللہ پاک نے مریم نام کی ایک خاتون کو شادی کے بغیر ،، کسی مرد کا منہ دیکھے بغیر مجرد اپنے حکم سے حاملہ کر دیا ،،جس نے عیسی علیہ السلام نام کا بچہ جنا !! یہ حدیث قران حکیم میں مختلف جگہوں پر تفصیلاً بیان ھوئی ھے !
یہ اللہ کی حدیث ھے ! قوی ترین ھے ! مگر یہ حدیث ھے ،،ایک واقعہ کے بارے میں خبر ھے ، سچی ھوتے ھوئے بھی اللہ کی سنت نہیں ھے !

اللہ کی سنت مرد اور عورت سے بچہ پیدا کرنا ھے ( یا ایہالناسُ انا خلقناکم من ذکرٍ و انثی ،، ائے نوع انسانیت ھم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیا ( الحجرات )
اب اگر آج ایک لڑکی بغیر شادی حاملہ ھو جائے اور پھر دعوی کرے کہ اللہ نے اسے اپنی قدرت سے حاملہ کر دیا ھے،، تو ایک آدھ واقعے کو سنت کہنے والے کس دلیل کے ساتھ اس لڑکی کے دعوے کو مسترد کریں گے ؟
کیا وہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ نہیں اللہ کی وہ حدیث ضعیف و معلول ھے ؟ جبکہ وہ قرآن اور سورہ آلِ عمران کھولے اسی طرح ان کے پیچھے پیچھے پھر رھی ھے جس طرح سلفی بخاری شریف لئے لئے حنفیوں کے پیچھے پیچھے پھرتے ھیں !!
کیا وہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ نہیں اُس وقت تو اللہ پاک کے اختیار و قدرت میں یہ بات تھی،،مگر فلاں آئینی ترمیم کے بعد اللہ سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا ھے اور اب وہ علی کل شئٍ قدیر نہیں ھے ؟
یا تمہارے اندر وہ سسٹم نہیں ھے جو مریم علیہ السلام کے اندر تھا ؟
کوئی ایک دلیل بتا دیں جس کے ذریعے وہ اس حدیث اور اس لڑکی کی بات کا رد کر سکتے ھیں ؟

مگر اھل سنت یہ کہہ سکتے ھیں کہ بی بی وہ ایک واقعہ تھا جو اللہ نے بیان کیا ھے،،مگر ھم سنت پر چلنے والے لوگ ھیں ! یہ اللہ کی سنت نہیں ھے ،اللہ کی سنت وہ ھے جو غیر مبدل و غیر محول ھے ! اور وہ سنت یہ ھے کہ بچہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ھوتا ھے ! قتل الانسان ما اکفرہ ! من ائ شئٍ خلقہ ؟ من نطفۃٍ خلقہ و قدرہ ( عبس ) فلینظر الانسان مم خلق ؟ خلق من ماءٍ دافق ( الطارق )

اب آپ حضرات اندازہ کر سکتے ھیں کہ سنت اور حدیث میں کیا فرق ھے اور صرف حدیث کو سنت کہنے والوں کو کبھی نہ کبھی بند گلی میں پھنسنا پڑتا ھے !