اسلام کو خطرہ لبرلز سے نہیں ،،
شدت پسندوں سے ھے ،
سکندر حیات بابا ! عربی کی ایک ضرب المثل ھے ،، (( کن غبیا تکن مومنا تقیاً )) اپنی عقل کی ساری کھڑکیاں اور دروازے بند کرو دو ، دین کے نام پر تمہیں جوکچا پکا پکڑایا جائے اسے بلا سوچے سمجھے اپناتے چلے جاؤ، کوئی سوال مت اٹھاؤ تو تم بہترین متقی مومن ھو ، جہاں آپ نے سوچنا شروع کیا وھیں سے آپ پر لبرل کا ٹھپہ لگ جاتا ھے ، آج غیر مسلم سائنسدانوں کے مقابلے میں مسلمان سائنسدانوں کے نام اور کارنامے یہ اھل جبہ و دستار بڑے فخر سے پیش کرتے ھیں وہ اپنے زمانے میں لبرل ،زندیق ، گمراہ ،بلکہ بعض تو کافربھی کہلاتے تھے ، خود سکندر حیات بابا بھی لبرل ھے ، اپنی داڑھی کے سائز سے فاسق ھے ، اس کی اذان ، اقامت ،امامت اور گواھی مکروہ ھے ،، اب وضو بول و براز سے ٹوٹے یا ریح کے خروج سے ٹوٹے ، ایک جیسے درجے اور ریکٹر اسکیل پر ایک ھی پیمانے پر ٹوٹتا ھے ،
اللہ پاک نے دو رسولوں کو فرعون جیسے دعوئ خدائی کرنے والے کے پاس بھیجا تھا اور نصیحت کر کے بھیجا تھا کہ ” قولا لہ قولا لینا ” تم دونوں اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ،
حضرت ھود علیہ السلام کو قوم نے کہا کہ ،،( إنا لَنَراكَ في سَفاهةٍ )
ھم تمہیں بیوقوف سمجھتے ھیں،، تو آپ نے جواب دیا کہ ( يا قَومِ ليس بي سفاهَةٌ )” اے قوم میں بےوقوف نہیں ھوں،
پلٹ کر یہ نہیں کہا کہ بیوقوف تم ھو ،،
ھارون رشید کے پاس اسکندر حیات بابا کے اسلاف میں سے کوئی آیا اور نہایت تلخ انداز میں نصیحت شروع کی جس پر ھارون رشید نے اسے ڈانٹ دیا کہ ، اللہ نے تم سے زیادہ نیک رسولوں کو مجھ سے زیادہ گنہگار فرعون کے پاس بھیجا تھا اور نصیحت کی تھی کہ اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کرنا ، نہ تم ان سے زیادہ نیک ھو اور نہ میں فرعون سے زیادہ گنہگار اپنا لہجہ درست کرو یا یہاں سے خیریت کے ساتھ نکل جاؤ اور تقوے کی یہ گرد باھر جا کر جھاڑو ،
اسلام کسی کی جاگیر نہیں کہ جو بھی چار انگل بال بڑھا لے گا اسلام اس کے نام رجستڑد ھو جائے گا اور وہ جس طرح چاھے اسلام کی عصمت دری کرتا رھے گا ،، گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اسلام اور اللہ ، رسول ﷺ کا ویسا ھی حقدار ھے اور درد رکھتا ھے جیسا یہ ” اسلام ، اسلام” کی تسبیح کرنے والے دعوی کرتے ھیں ،
مسلمانوں کے کاٹے ھوئے سروں کی کھوپڑیوں سے فٹ بال لبرلز نہیں یہی اسلام کے میر جعفر و میر صادق ھی کھیلتے ھیں ،
مدارس اور مساجد لبرلز نے نہیں باریش غداروں نے اڑائے ھیں ،
پاکستان کے اثاثوں پر حملے لبرلز نے نہیں ،، مذھبی جنونیوں نے کیئے ھیں ،
اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ان کو تہس نہس انہوں نے ھی کیا ھے جن کو اسلام کا ہیضہ ھو گیا ھے ،،
صومالیہ ، لیبیا ، شام ، عراق ، افغانستان، پاکستان اور ترکی نائیجیریا ھر جگہ آگ کے پیچھے لبرلز نہیں اسلام کے وہ فرزند ھیں جنہوں نے اسلام کو بدنام کر کے ” امن و شانتی ” والے ترجمے کا تمسخر بنا دیا ھے ،،
لبرلز سے اقدار کا دفاع ،،
کونسی اقدار ؟
مفتیوں کا وہ مضاربہ گینگ بھول گئے جو بیواؤں اور بوڑھے پینش یافتہ لوگوں کے اربوں اپنی من موہنی شکلوں کی گارنٹی پہ لوٹ لے گئے ؟
خون کی ایک بوتل کی تین بوتل بنا کر ھم بیچتے ھیں ،
سڑکوں سے مرے ھوئے گدھے اور کتے اٹھا کر چربی نکال کر اسلام آباد سے کراچی تک سپلائی ھم کرتےھیں ،
گدھے اور کتے کا گوشت بکتا ھے ،
جعلی دوائیاں ھم بناتے ھیں ،
گٹر سے چربی نکال کر صابن بناتے ھیں ،
زلزلے میں مری ھوئی لاشوں کے بازو کنگھن اور چوڑیوں سمیت کٹے ھوئےھمارے بیگ سے نکلتے ھیں ،،
لڑکیاں باھر سے بچاؤ تو کزنز ان کی عزت لوٹ لیتے ھیں ،،
رہ گئے بچے تو وہ مسجد اور مدرسے میں عزت گنوا آتے ھیں ،،
کونسی اقدار ھیں جن کو لبرلز سے خطرہ ھے ،، ھمارے ھوتے ھوئے لبرلز کی ھمت ھے کہ وہ اسلام یا پاکستان کو بدنام کر سکیں ؎
رھا خطرہ نہ چوری کا دعا دیتا ھوں راہزن کو ،،
لبرلز اگر اپنی بیٹیوں کو پڑھا کر ڈاکٹر نہ بنائیں تو آپ کی خواتین کی بواسیر کے آپریشن بھی مرد کریں اور کرتے آئے ھیں ،
لبرل اپنی بچیوں کو نہ پڑھائیں تو آپ کی بیٹیوں کو نادرا ، بینک ، واپڈا ، اسکولوں میں مردوں سے ھی واسطہ پڑے ، یہ لبرلز کی مہربانی سے آپ کو ھر جگہ خواتین کا کاؤنٹر مل جاتا ھے ، اور جہاں دستیاب نہ ھو وھاں آپ گز گز اچھلتے ھیں کہ ” تم لوگوں نے لیڈیز کے لئے الگ کاؤنٹر کیوں نہیں بنایا ؟
رہ گیا بیویوں کی تنخواہ کھانا ، تو جناب یہ تو بڑے بڑے علماء کھا رھے ھیں جن کی بیویاں آن لائن بھی قرآن پڑھاتی ھیں اور گھروں میں بھی اور ٹھیک ٹھاک پیسے لیتی ھیں اور شوھر سے زیادہ کما لیتی ھیں اور گھر وھی چلا رھی ھیں ،،بچوں کی فیسیں بھی ادا کرتی ھیں ،،
خود نبئ کریم ﷺ نے اعلانِ نبوت کے بعد کونسا ذریعہ معاش چنا تھا ؟ سارا گھر کا خرچ حضرت خدیجہ چلاتی تھیں اور اللہ پاک نے نبئ کریم ﷺ پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کا احسان جتلایا ھے ” ووجدک عائلاً فاغنی ” اللہ نے آپ کو تنگدست پایا تو غنی کر دیا ، یہ حضرت خدیجہؓ کے مال سے غنا ملا تھا ، ،
لبرلز کی جو تعریف سکندر حیات بابا کرتا ھے وہ اس کی ذھنی اختراع اور تعصب و حسد کے سوا کچھ بھی نہیں ،،
لبرل کا مطلب معتدل مسلمان ھونا ھے ،
بے دین اور دھریہ ھونا نہیں ھے ،،
لبرل ھونے کا مطلب ھے کہ آپ خود 100 فیصد دین پر عمل کر لو بس اس کو بندوق سے کسی پر مسلط مت کرو تو آپ لبرل مسلمان ھو ،،
آپ اپنی شلوار گھٹنوں تک لے جاؤ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں مگر کسی کے ٹخنے تاڑنے چھوڑ دو تو آپ لبرل ھو،،،،
آپ اپنے ھاتھ سینے پر باندھیں یا ناف کے نیچے یا ناف سے اوپر یا ناف کے دائیں یا بائیں یا پیچھے باندھ لیں یا بالکل بھی نہ باندھیں ،مگر اپنے ھاتھ کسی کی ناف پر باندھنے سے پرھیز فرمائیں تو آپ لبرل ھیں ،
آپ اپنی بیوی کو کالا برقع کرائیں یا براؤن ، شٹل کاک یا بیل باٹم والا ،، مگر دوسروں کی بیویوں پر اعتراض نہ کریں ان پر تیزاب نہ ڈالیں تو آپ لبرل ھیں ،،
آپ کی جو بھی فقہ ھو آپ اس کو فالو کریں ،مگر دوسروں کی فقہ پر اعتراض نہ کریں تو آپ لبرل مسلمان ھیں ،،
آپ کیا سوچتے ھیں یہ آپ کا ذاتی ذوق و شوق ھے،خاندانی جراثیموں کا عمل دخل ھے یا ماحول کی عطا ھے ،،مگر اپنی سوچ کو کسی پر لادنے سے پرھیز کریں تو آپ لبرل مسلمان ھیں ،،
اگر آپ ھر ایک کو مجبور نہیں کرتے کہ وہ اپنا دماغ فریج میں رکھ کر آپ کا دماغ کرائے پر لے لے تو آپ لبرل مسلمان ھیں
کیا یہی بات اللہ پاک نے بھی نہیں فرمائی ؟
اے ایمان والو، تمہارے ذمے اپنا آپ ھے ، جو گمراہ ھے وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ھدایت پر ھو ، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ھے ، وہ خود تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رھے ھو ،،
يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم إلى الله مرجعكم جميعا فينبئكم بما كنتم تعملون 105 المائدہ،،
پھر فرمایا کہ اے ایمان والو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اھل وعیال کو اس آگ سے کہ جس کا ایندھن انسان اور( پوجے جانے والے) پتھرھیں اس پر ایسے تند خواور سخت مزاج فرشتے متعین ھیں جو کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کہا جاتا ھے وھی کرتے ھیں ،،
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ( التحریم -6) ﴾
جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر زمین میں فساد بپا کر دیتے ھیں ، وہ نہ تو امر بالمعروف کے معانی سے واقف ھیں اور نہ اس کے درجات و ترتیب سے ،، آپ کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک حد ھے ،آپ اپنی بیوی کو ڈنڈے سے پردہ کرانا چاہتے ھیں تو شوق سے کرا لیں مگر دوسرے کی بیوی اس کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا میدان ھے ، یہ کہاں لکھا ھے کہ اگر ساتھ کی ٹیبل والا پیپسی نہیں پی رھا تو آپ اس کی پیپسی اٹھا کر پی جائیں ،،
امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی ابتدا بھی اپنی ذات اور اپنے اھل و عیال پھر رشتے داروں سے ھوتی ھے الاقرب فالاقرب ،، اس میں بھی امر کی حدود ھیں اور نہی کی بھی حدود ھیں ،ھماری حدود محدود ھیں اس سے آگے حاکم کی حدود ھیں ، افسوس یہ ھے کہ لوگ اپنی ذات اپنا گھر بھول کر حاکم والا کام اپنے ھاتھ میں لے لیتے ھیں ، اللہ پاک نے نبئ کریم ﷺ سے فرمایا تھا ” و انذر عشرتک الاقربین ” اپنے قریبی رشتے داروں کو خبردار کیجئے ،،
کہیں آپ صرف منہ سے کہہ سکتے ھیں ،کہیں ھاتھ بھی چلا سکتے ھیں اور کہیں بس دل میں کڑھ کر رہ جاتے ھیں ،، اللہ کے نزدیک اس کی بھی اھمیت ھے،
انسان کپڑوں کے معاملے میں اسی وقت تک احتیاط کرتا ھے جب تک کہ ان پر پہلا داغ نہ لگ جائے ، داغ لگتے ھی وہ دوسرے داغ کے معاملے میں ایزی ھو جاتا ھے کہ دھونے تو ویسے بھی ھیں دو چار اور لگ گئے تو بھی کوئی گل نئیں ،،
اللہ کے رسولﷺ ھر روتے ھوئے آنے والے کو تسلی دے کر بھیجا کرتے تھے کہ تو بڑا صاف ستھرا نیک بندہ ھے خواہ مخواہ ٹینشن لی ھوئی ھے ،، کیا تیرا گناہ زمین آسمان سے بڑا ھے ؟ وہ ھاں کہتا تو مسکرا کر فرما دیتے کتنا بڑا ؟ اللہ کی رحمت سے بھی بڑا ؟؟ وہ گھبرا کر کہتا ، اللہ کی رحمت سے تو بڑا نہیں ، فرمایا کہ بس پھر فکر کس بات کی ھے ،، چل پڑھ ،،اللھم مغفرتک اوسع من ذنبی ورحمتک ارجی عندی من عملی ،، اے اللہ تیری بخشش میرے گناہ سے بڑی ھے اور مجھے اپنے عملوں کی بجائے تیری رحمت پر زیادہ بھروسہ ھے ،، چار بار پڑھا کر سرٹیفیکیٹ دے دیتے ،قم قد غفر اللہ لک ،، چل اٹھ اللہ نے تجھے بخش دیا ھے ،، گناہ کی تفصیل کبھی نہ پوچھی اس کی پریشانی سے ھی تڑپ کر رہ گئے ،فرمایا نماز ھمارے ساتھ پڑھی ھے ؟ عرض کیا جی ،، فرمایا پھر تو وہ معاف و صاف ھو گیا ھے جو کیا تھا ، اب آگے کا خیال رکھ ،،
آج کل اللہ والے مسجد میں آنے والوں کو گھور گھور کر ان میں سے گنہگار تاڑتے ھیں اور کوئی نہ کوئی جواز پکڑ ھی لیتے ھیں لعن طعن کرنے کا ،، بالوں کا سٹائل ، پینٹ کے پائنچے،، آدھے بازو کی شرٹ ،ننگا سر ،، شرٹ پر بنا کوئی پرنٹ الغرض بچ کر نہیں جانے دیتے ،مقصد آپ کے عیب سے زیادہ اپنے نیک اور متقی ھونے کی مارکیٹنگ کرنی ھوتی ھے ،، عیسی علیہ السلام کے گرد عموماً لبرلز کے ھی جمگھٹے ھوتے تھے جہاں سے انہیں بخشش کی بشارتیں ملتی تھی ، اللہ کی رحمت کی بشارتیں ھوتی تھی ،، اللہ کی شفقت کی مثالیں سنائی جاتی تھی ،، یوں فقہ کے نام پر جو بھٹی اور تندور فریسیوں نے جلا رکھے تھے عیسی علیہ السلام کی معیت میں وہ سب آگ بجھ جاتی تھی اور اللہ کی رحمت گھٹائیں بن کر برستی تھی ،،
عیسی علیہ السلام کے سارے مضامین گنہگاروں کو تسلی دینے والے اور فریسیوں کے پول کھولنے والے ھیں ،، تم مچھر چھانتے ھو مگر سموچے اونٹ نگل جاتے ھو، تمہارا حال ان قبروں کا سا ھے جن کے باھر تو خوب چونا کیا ھوتا ھے مگر اندر بدبودار گلی سڑی ھڈیاں ھوتی ھیں ، تم نے باپ کے گھر کو بھیڑیوں کے بھٹ بنا کر رکھ دیا ھے ، تمہارا فتوی پیسے والے کے لئے الگ ھوتا ھے کیونکہ وہ اس کو خریدنےکی سکت رکھتا ھے جبکہ غریب کے لئے تمہارے پاس صرف جھڑکیاں ھیں ،اس کے لئے تمہارے پاس خدا کا کوئی اور روپ ھے ، کیونکہ وہ خدا کی رحمت کی قیمت تمہیں نہیں دے سکتا ،،
لہذا فریسیوں کے دھتکارے ھوئے گنہگاروں کے گروہ عیسی علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رھتے ،، اور فریسی خود عیسی علیہ السلام کے واجب القتل ھونے کے فتوے بھی جاری کرتے رھتے ،، اور آخر رومن سلطنت کو ان فتوؤں پر عملدرآمد کے لئے مجبور کر دیا ،
یہ کھیل آج بھی جاری ھے ،لوگوں کے اربوں کھربوں مضاربے کے نام پر کھا جانے والے ، اور ھر گناہ سے آلودہ لوگ امت کو دھکے دے کر جھنم میں پھینکنے پر تلے بیٹھے ھیں،، خود 100٪ چودھویں صدی کے ھی مسلمان ھیں اور ھر وائرس کے کیرئر ھیں مگر ما شاء اللہ فتوے قرونِ اولی کے دے کر جنت جھنم کے فیصلے کرتے ھیں ،، جبکہ اللہ کے یہاں قرون اولی سے دوری تخفیف کا سبب ھے ،، جو ڈسکاؤنٹ علماء کو حاصل ھے وہ عوام کو بھی حاصل ھے ،، اللہ پاک نے فرمایا کہ ،، اگر تم میں 20 صابر ھوں تو تو 200 پر غالب آ جائیں گے ،، مگر پھر فرمایا کہ اب اللہ نے نسبت تناسب میں تخفیف کر دی ھے کیونکہ اسے معلوم ھے کہ تم میں ضعف پیدا ھو گیا ،، جو نسبت پہلے ایک اور دس کی تھی اب ایک اور دو کی ھو گئ ھے ،اگر تم میں 100 صابر ھونگے تو 200 پر غالب آ جائیں گے اور 1000 ھونگے تو 2000 پر غالب آ جائیں گے ،،
جن مسلمانوں کو ھمارے علماء اور ان کی دیکھا دیکھی بعض صحافی بھی لبرل کا طعنہ دینا شروع ھو گئے ھیں یقین جانیں امت محمدﷺ کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ یہی لبرل ھی بناتے ھیں ،،، یہ اسلام اور الحاد کے درمیان اسلام کا آخری مورچہ ھیں ،، الحاد کی طرف سرپٹ دوڑنے والا ان کے پاس آ کر تھوڑی دیر ضرور سستاتا ھے ، ایزی فیل کرتا ھے ،اس کو اپنا آپ بھی مسلمان مسلمان لگنا شروع ھوتا ، مسلمان مرنے کی امنگ پھر جاگ جاتی ھے اور وہ صحتمند ھونا شروع ھو جاتا ھے ،، ان کے بعد الحاد کی وہ گھاٹی شروع ھوتی ھے جہاں سنبھلنا بہت مشکل ھوتا ھے ، اس وقت الحاد کے خلاف لبرلز ھی آخری دوا کے طور پر استعمال ھو رھے ھیں ،، مولوی صاحب تو کب کا ان کو جھنم میں پھینک کر ” گھڑم ” کی آواز کا انتظار کر رھے ھیں تا کہ اس کے جھنم میں گرنے کی تصدیق ھو جائے ،، کہیں رستے میں لوٹے پکڑ کر لٹک ھی نہ گیا ھو ،،
چنانچہ اسلام کی وسعت اور اللہ کی رحمت کا رخ دکھانے والے علماء کی طرف لبرلز کا ذوق و شوق جو کہ ھمارے متشددین کو بالکل نہیں بھاتا ،، یہ ذوق و شوق ان لبرلز کی اسلام کے ساتھ محبت کا مظھر ھے ناں کہ دشمنی کا اظہار ھے ،، کوئی دوسرا کون ھوتا ھے اور اس کو کس شریعت نے یہ حق دیا ھے کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان فاصلے ماپے اور طے کرے کہ کون خدا کے کتنا قریب اور کتنا دور ھے ؟؟ آپ تو یہ تک طے نہیں کر سکتے کہ کون قاری حنیف کے قریب اور کون قاری حنیف سے دور ھے ،خدا تو پھر خدا ھے ،،
===================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر
Boost post