موسی علیہ السلام جب رسول بن کر لوٹے تو "کان حیی ” حیادار تھے ،سب کے سامنے ننگے نہیں نہاتے تھے ،، جبکہ باقی بنی اسرائیل کھلے کھاتے اور ننگے نہاتے تھے ،، بنی اسرائیل نے کہا کہ لازم موسی علیہ السلام کے خفیۃ اعضاء میں کوئی عیب ھے ( بچہ وہ ساتھ لے کر آئے تھے اس لئے نامردی کا الزام لگ نہیں سکتا ، بس ھرنیا ورنیا کا ھو سکتا ھے ) خیر اللہ نے پروگرام بنایا کہ موسی کو ننگا کرنا ھے چنانچہ پتھر کو کہا گیا کہ موسی جب کپڑے اتار کر رکھے تو ،، تُو وہ کپڑے لے کر بھاگ نکلنا اور جدھر بنی اسرائیل کے مسٹنڈوں کا جھمگٹا لگا ھو ادھر کا رخ کرنا ،پتھر کا روٹ طے کر کے اسے پرمٹ تھما دیا گیا وہ تمام چھوٹی بڑی گلیوں میں سے بھاگتا ھوا نکلا اور موسی علیہ السلام اپنے مشہورِ زمانہ عصا اس کو مارتے مادر زاد ننگے اس کے پیچھے دوڑتے جا رھے تھے اور اے پتھر میرے کپڑے اے پتھر میرے کپڑے پکارتے جاتے تھے،، جب پتھر مجمعے کے پاس رکا تو سارے مجمعے نے دیکھا کہ موسی علیہ السلام کے خفیہ مردا نہ اعضاء بھی خوبصورت تھے ،،( چنانچہ وہ سارے کلمہ پڑھ کر مسلمان ھو گئے ) اب حدیث یہ بھی ھے مگر چونکہ یہ نبی کی بطور انسان بھی انسلٹ کرتی ھے ،، بطور رسول بھی انسلٹ کرتی ھے ،، اللہ پاک کی بھی انسلٹ کرتی ھے جو اپنے نبی کو حیاء پر انعام دینے کی بجائے الٹا سزا دیتا ھے ،، کچھ لوگ دلیل دیتے ھیں کہ آدم علیہ السلام کے کپڑے بھی تو اتارے تھے ،،، جواب ھے کہ وہ کپڑے نافرمانی پر خود اترے تھے ،کیا حیاء بھی اللہ کی نافرمانی ھے ؟ اس نافرمانی کا تعلق بھی کپڑوں کے ساتھ تھا اور خود اتارے گئے تھے ، اس لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ شیطان نے کپڑے اتروا دئے ،، ویسے موسی علیہ السلام جیسے رسول کہ جن میں کی کتاب و شریعت پر ھزاروں نبی مبعوث کیئے گئے کیا اتنا عقل و شعور بھی نہیں تھا جتنا ایک عام ڈنگر چرانے والی عورت میں ھوتا ھے کہ وہ پانی میں ھی بیٹھے رھتے اور کسی اور سے چادر مانگ کر باھر نکل آتے ،پھر اپنے کپڑوں کی فکر کرتے ؟ کوئی عورت دل پر ھاتھ رکھ کر بتائے کہ اگر اس کے کپڑے کوئی لڑکا چرا کر لے جائے تا کہ وہ ننگی باھر نکلے تو وہ اس کو دیکھ لے تو کیا وہ عورت واقعی ننگی باھر نکل کر کپڑے تلاش کرے گی یا پانی میں رہ کر ھی کسی کو مدد کے لئے پکارے گی ؟ یہ حدیث بخاری کی ھے مگر میں اس کو نہیں مانتا اور نہ ماننا ضروری خیال کرتا ھوں کیونکہ اس کا نہ ایمان کے ساتھ کوئی تعلق ھے اور نہ عمل کے ساتھ ،،مان لو تو بندہ ننگا باھر نکل نہیں سکتا اور نہ ننگا نکلنے والے کو دیکھ سکتا ھے ،، اور نہ اس کے ماننے سے ایمان میں اضافہ ھوتا ھے ،، گویا نہ ایمان کا فائدہ اور نہ عمل کا فائدہ جبکہ مذکورہ بالا حکم و طبری کی حدیث کو پڑھ کر نبئ کریم ﷺ پر پیار بھی آتا ھے نتیجے میں آپ ﷺ پر ایمان بھی بڑھتا ھے اور عزیزوں رشتے داروں کا بھی بھلا ھوتا ھے ،
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
((إن موسى كان رجلاً حيياً ستيراً لا يرى جلده شيء استحياء منه، فأذاه من أذاه من بني إسرائيل.
فقالوا: ما يستتر هذا التستر إلا من عيب بجلده، إما برص أو أدرة، وإما آفة، وأن الله عز وجل أراد أن يبرأه مما قالوا لموسى، فخلا يوماً وحده، فوضع ثيابه على الحجر، ثم اغتسل فلما فرغ أقبل على ثيابه ليأخذها، وإن الحجر عدا بثوبه.
فأخذ موسى عصاه، وطلب الحجر، فجعل يقول:
ثوبي حجر، ثوبي حجر، حتى انتهى إلى ملأ من بني إسرائيل، فرأوه عرياناً أحسن ما خلق الله، وبرأه مما يقولون.
وقام الحجر فأخذ ثوبه فلبسه، وطفق بالحجر ضرباً بعصاه، فوالله إن بالحجر لندباً من أثر ضربه ثلاثاً أو أربعاً أو خمساً قال: فذلك قوله عز وجل (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهاً} [الأحزاب: 69])).
موسی علیہ السلام اسی قوم میں پیدا ھوئے تھے – پہلے فرعون کے محل میں پلے بڑھے اور شاھی حمام میں نہاتے تھے ،، وھاں سے بھاگے تو اسی حال میں بھاگے ،، اپنی قوم میں وہ نبی بن کر ھی آئے ،، اور بیوی اور بیٹے سمیت آئے ،، بنی اسرائیل نسل در نسل نبیوں کی اولاد تھی ،کوئی بندروں کی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے کہ ان میں ایک بھی حیا والا نہیں تھا خود ھارون علیہ السلام اسی بنی اسرائیل میں موجود تھے کیا وہ بھی قوم کے ساتھ ننگے نہایا کرتے تھے ؟ ھر انسان کو پتہ ھوتا ھے کہ اس کی اولاد میں سے بھی بعض بچے سب کے سامنے نہانے سے کتراتے ھیں ،،کیا ھمیں معلوم نہیں کہ لوگ دیہات کے تالابوں میں کس طرح ننگے نہایا کرتے تھے اور اب بھی نہایا کرتے ھیں ،،مرد کو صرف ایک ھی چیز چھپانی ھوتی ھے ، نہانے میں اوپر کا بدن تو سب کا نظر آتا ھے ،آخر اللہ کیوں ان کو پانی سے نکالنا چاھتا تھا ؟ کوئی پانی میں چھپی چیز ھی دکھانا چاھتا تھا ؟ کیا یہ کسی رسول کو خوار کرنے کا آسان فارمولہ نہیں ھے کہ اس کے ستر کے بارے میں کوئی افواہ اڑا دو تا کہ اللہ اس کو ننگا کر کے دکھا دے ؟ کہاں لکھا ھے کہ موسی علیہ السلام ایک کپڑے میں بھاگے تھے ؟ اگر اللہ کو اوپر کا بدن ھی دکھانا مطلوب تھا تو براہ راست موسی علیہ السلام کو حکم نہیں دیا جا سکتا تھا کہ اپنی قمیص اتار کر دکھا دیں ؟ پھر قومِ فرعون کا ذکر نہیں ان کی اپنی قوم کا ذکر ھے جو ان پر ایمان لا چکی تھی کیا وہ اپنی قوم کو ھی بدن دکھانے پر تیار نہ ھوتے ،، اب آیئے اس حدیث کے متن کی طرف ،،،،، پہلے تو جس آیت کی تفسیر میں اس کو پیش کیا گیا ھے ، اس آیت میں جسمانی عیب کا ذکر ھی نہیں ،، وھاں تو الزام کا ذکر ،کردار پر الزام کی بات ھو رھی ھے جس پر موسی کو قوم سے اذیت پہنچی تو اللہ نے ان کو بری ثابت کر دیا ،، اگر برص کی بیماری کا الزام ھوتا تو برص میں قوم کا کیا قصور تھا ؟ اور یہ نبی کریم ﷺ پرمعاذ اللہ حضرت زینب سے ملوث ھونے کے الزام کے پسِ منظر میں بات ھو رھی ھے کہ اے اایمان والو تم بھی اپنے نبی کو اس طرح اذیت مت دو جس طرح موسی علیہ السلام کو ان کی قوم نے اذیت دی تھی تو اللہ نے ان کو پاک صاف ثابت کر دکھایا ،، کیونکہ یہاں مماثلت کی بات ھے ،اب یہ زاھد کریم صاحب کے ذمے ھے کہ وہ ثابت کریں کہ نبی کریم ﷺ پر بھی کوئی جسمانی عیب کا الزام ثابت کریں ورنہ سورہ الاحزاب کی اپنی تفاسیر دیکھیں کہ نبئ کریم ﷺ پر کیا الزام تھا کہ بہو کو چھت پر سے نہاتے دیکھا تو عاشق ھو گئے اور دباؤ ڈال کر طلاق دلوائی اور خود نکاح کر لیا ، یہی الزام حضرت داؤد پر اپنے سزدار کی بیوی کے سلسلے میں بھی تھا جس کی صفائی اللہ نے پیش کی اور یہی الزام قارون نے ایک عورت کو پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر لگوایا تھا ،مگر اللہ نے بر سرِ مجمع اس عورت کی زبان پلٹ دی اور اس نے مجمعے میں ھی کہہ دیا کہ قارون نے مجھے پیسے دے کر موسی علیہ السلام پر بدکاری کا الزام لگانے پر آمادہ کیا تھا ،،جسمانی عیب کا الزام نہ نبئ کریم ﷺ پر تھا اور نہ موسی علیہ السلام پر ،، اصل میں یہ کعب احبار کی کارستانی ھے کہ جس نے وہ تمام گند جو قرآن نے بنی اسرائیل کے نبیوں پر سے ھٹایا تھا اس نے کمال ھوشیاری سے اپنے شاگردوں کے ذریعے دوبارہ حدیثوں کے طور پر مقدس کتابوں میں ٹھونس دیا ،، جب تک عمر فاروقؓ زندہ رھے انہوں نے ھمیشہ اس دجال پر نظر رکھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کی یہودیت گئ نہیں اور یہ مکمل مسلمان نہیں ھے ،جب فاروق بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ نماز کس طرف کو پڑھیں ؟ کعب احبار نے مشورہ دیا کہ امیر المومنین اگر آپ اس رخ سے نماز پڑھیں گے تو پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ھو گا ،، کعب احبار حضرت عمرؓ کو اس جگہ سے دور رکھنے کی کوشش کر رھے تھے کہ جہاں نبئ کریم اور تمام نبیوں نے نماز ادا کی تھی ،، اس چالاک بندے کو پتہ تھا کہ عمرؓ جہاں نماز پڑھیں گے اپنے نبی ﷺ کی سنت کے طور پر وھیں نماز پڑھیں گے وہ موسی علیہ السلام کی جائے نماز پر مسلم عبادتگاہ بننے نہیں دینا چاھتا تھا ، عمر فاروقؓ یہ بات تاڑ گئے اور فرمایا کہ اے کعب واللہ تیرے اندر سے یہودیت مری نہیں ھے ،میں وھیں نماز پڑھونگا جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی ھے ،چنانچہ آپ نے وھیں نماز پڑھی جہاں آج مسجد عمر فاروقؓ موجود ھے ،، رہ گئ بیماری والے ترجمے کی بات تو گزارش ھے کہ اس حدیث کی تفاسیر ھی دیکھ لیجئے کہ آپ کے بزرگوں نے بیماری کی تفسیر کیا کی ھے اس میں باقاعدہ خصیوں کے غیرمتوازن ھونے تک کی بات کی گئ ھے کیونکہ اس چھپی بیماری کا ھر نام اس حدیث میں لے لیا گیا ھے ،، برص او آدرہ او آفہ ،، اس آفت کا ترجمہ کیا ھے ؟ برص چھپے حصے میں ھو تو عیب نہیں ھوتا ،عیب وھاں ھوتا ھے جہاں لوگوں کو نظر آتا ھے ،،