دین میں آسانی پیدا کرو تنگی مت پیدا کرو،،( یسروا ولا تعسروا )
جب رستے بند ھو جاتے ھیں ، اور نئے حالات میں پیش آمدہ مسئلے میں امت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے کوئی بات نہیں پہنچتی تو فقہاء اور مجتھدین کو دعوت دی جاتی ھے کہ وہ اسی طرح ملبے کو کاٹ کر امت کے نکلنے کا رستہ بنائیں جس طرح لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند سڑکوں کو کھول کر گاڑیوں کے لئے اور گری ھوئی عمارتوں میں سے انسانوں کی نکلنے کی راہ بنائی جاتی ھے ،، نئ راہ بناکر امت کو رستہ دینے کی نیت سے اجتہاد کیا جاتا ھے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے کھولی گئ راہوں کو بند کرنے اور دین کے کشادہ رستوں کو تنگ کرنے کے لئے اجتہاد کیا جائے ،، اسلام کی تمام تر قانون سازی ایک ادنی مسلمان کو سامنے رکھ کر کی گئ ھے نہ کہ ابوبکر صدیقؓ یا دیگر خلفائے راشدین یا عشرہ مبشرہ کو سامنے رکھ کر کی گئ ھے ، ایسا اس لئے کیا گیا ھے تا کہ ساری امت اکٹھی ایک قافلے کی صورت میں چل سکے اور نبئ کریم ﷺ ان کی پشت پر ھوں ، ،، ھر نبی کو اپنی امت کو آگے لے کر چلنے کا حکم دیا گیا ھے ” واتبع ادبارھم ” لہذا اللہ کے رسول ﷺ کی ساری سنتیں اور طریقے نہایت آسان ھیں اور اللہ کے رسول ﷺ نے یہ جانتے ھوئے کہ میری امت کو میرا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ھے لہذا میں اپنے تقوے اور استطاعت کے شوق میں کوئی ایسا کام نہ کروں جسے میری امت نہ کر سکے ،، اگر گاڑیوں کا ایک قافلہ جا رھا ھے تو یہ آخر تک قافلہ اسی صورت میں رہ سکتا ھے جب تک کہ قافلے کی رفتار قافلے میں موجود سب سے کمزور گاری کی رفتار کے حساب سے طے کی جائے ،، اگر ھر گاڑی اپنے اپنے ماڈل کے حساب سے سپیڈ مارے گی تو ایک پشاور ھو گی تو دوسری نوشہرہ اور تیسری ٹیکسلا قافلہ نام کی کوئی چیز نہیں ھو گی ،،
اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی سنت چھوڑی ھے کہ اگر کوئی شخص اس پر چلنے کا ارادہ کرے تو اسی لمحے سے چلنا شروع کر سکے ،، بعد میں کچھ اسپیڈ مارنے والوں کی اسپیڈ ان کا ذاتی معاملہ ھے ،قابلِ تقلید فعل صرف نبئ کریم ﷺ کا ھے ،، آپ نے گیارہ رکعت رات کی نماز پڑھی ھے ،ھر بندہ پڑھ سکتا ھے مگر سیکڑوں نوافل ،، مغرب سے عشاء تک چار قرآن ختم ،، بلکہ اوابین کی آٹھ رکعتوں میں آٹھ قرآن ختم ،، پچاس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ،، کنوئیں میں الٹا لٹک کر چلہ کشی ، پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ھو کر چلے کاٹنا ،، اور پھر لوگوں کی حاجات پوری کرنے کا کنٹریکٹ لے لینا امت کو بے راہ تو کرتا ھے اور امت اپنے نبیﷺ کا رستہ چھوڑ کر ان خوشنما پگڈنڈیوں میں کھو جاتی ھے ،، اور ان لوگوں کے انفرادی اعمال کو لے کر آئیڈیل بنا لیتی ھے ،نبی ﷺ کی سادگی اور آسانی کوعیب سمجھتی ھے اور 2 فیصد لوگوں کا عمل لے کر باقی 98٪ احساسِ کمتری میں مبتلا ھو کر ان دو فیصد کے در پر حاجت روائی کے لئے لائن لگا لیتے ھیں کہ انہوں نے بڑی محنتیں کی ھیں ،، یہ بالکل ھندو مذھب کا تصور ھے ،، جس نے محنت کی ھے اپنی قبر ٹھنڈی کی ھے ، امت کا ٹھیکہ نہیں لیا،، ھر فرد اپنے کیئے کا خود پھل کھائے گا ،، ھندؤں میں یہ تصور ھے کہ اگر اتنی تپسیا اور فلاں فلاں منڈل اور جاپ کر لیا جائے تو فلاں فلاں شکتیاں اور اتنےاتنے موکل مل جاتے ھیں ، جن کے ذریعے یہ لوگ عام بالک کی دُر درشائیں دور کرتے ھیں ، اسلام میں ایسا کچھ بھی نہیں ھے ،اسلام میں نبیوں سمیت سب کی مشکلیں آسان کرنے والا ایک ھی در ھے جس پر ابراھیم علیہ السلام ، ایوب و زکریا ،یونس اور لوط، موسی اور ھارون علیھم السلام نے ایڑیاں رگڑ کر مانگا ھے ، اگرابو الانبیاء ابراھیم خلیل اللہ علیہ و علی نبینا الصلوۃ والسلام کو خود کفالت عطا نہیں کی گئ اور کوئی ڈپو الاٹ نہیں کیا گیا اور مانگ مانگ کر دیا گیا ھے تو یقین رکھیں کہ باقی سب کو بھی وھیں سے ملتا ھے جہاں سے نبیوں نے اپنے عمل سے مانگ کر اور پا کر دکھا دیا ھے ،، حضرت یونس علیہ السلام کو جب مانگنے پر نجات دی گئ تو صاف کہا گیا کہ یہ نجات پونس علیہ السلام پر ختم نہیں ھو گئ بلکہ ” کذلک ننجی المومنین ” ھم اسی طرح تمام مومنوں کو بھی غموں سے نجات دیں گے اور دیتے ھیں جب وہ ھم سے مانگیں ،، اس لئے اپنی عبادات کو نہ تو معمولی سمجھیں اور نہ احساس کمتری میں مبتلا ھو کر سنت سے دور ھوں ،،
ھماری نفسیات یہی ھے کہ ھم دوا سے زیادہ دوا کی قیمت کو اھمیت دیتے ھیں ، مہنگی دوا فائدے کی بجائے نقصان بھی دے ماں باپ مار کر بھی کھلا دیتے ھیں کہ پیسے خرچے ھوئے ھیں ،، حکیم کی دوا سستی مگر فائدہ مند بھی ھو تو اس کا سستا ھونا ھی اس کا عیب اور قصور بن جاتا ھے کہ دس روپے کی دوا کیا فائدہ دے گی ، اور بچہ نہ کھائے تو والدین کو فکر بھی کوئی نہیں ھوتی ،، آج سنت کی آسانی اس کا قصور بن گیا ھے ،، اورعلماء تک میں آسانی کی طلب عیب بن گیا ھے حالانکہ اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں بڑی تاکید کے ساتھ فرمایا ھے کہ ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العُسر،، اللہ تمہارے لئے آسانی چاھتا ھے تنگی نہیں چاھتا ،، یرید اللہ ان یخفف عنکم ” اللہ تم سے تخفیف چاھتا ھوں ،، مگر ھم یہی سمجھتے ھیں کہ ھماری ان نمازوں سے کیا ھوتا ھے اور اللہ کیوں ھماری سنے گا ،چل کر ان سے مانگتے ھیں جو الٹے لٹک کر نماز پڑھتے تھے ،،
اللہ کے رسول ﷺ حجۃ الوداع میں بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے اور وھاں نفل پڑھے ، مگر نفل پڑھنے کے بعد آپﷺ کو احساس ھوا کہ کہیں میری امت ان کو سنت سمجھ کر بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے اس طرح وہ کچلے جائیں گے ،، تو آپ رنجیدہ ھو گئے ، خیمے میں واپس تشریف لائے تو ام المومنینؓ نے پوچھا کہ آپ ﷺ جب گئے تھے تو موڈ بہت اچھا تھا جبکہ واپس آئے ھیں تو رنجیدہ رنجیدہ لگتے ھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں آج ایک ایسا کام کر دیا ھے کہ اگر مجھے وہ خیال پہلے آ جاتا جو بعد میں آیا ھے تو میں یہ کام کبھی نہ کرتا ،،، میں نے بیت اللہ کے اندر نفل پڑھ لئے ھیں اور لوگ اس کو سنت سمجھ کر ٹوٹ پڑیں گے یوں میری امت مشقت میں پڑ جائے گی ،، لہذا آپ نے یہ بات ریکارڈ کروا دی کہ بیت اللہ میں نفل پڑھنا سنت نہیں ھے ،، یہ ھے نبئ کریم ﷺ کی اپنی امت پر شفقت کا عالم ،،،،،،