کلیجہ شق کر دینے والا سوال !
پشاور سانحے کے شھید بچوں کی ماؤں کا سوال ھے کہ اگر اس دن ھمارے بچے اسکول نہ جاتے تو اس دردناک انجام سے بچ جاتے ، خاص طور وہ مائیں جن کے بچے اس دن اسکول نہیں جانا جاتے تھے اور ماؤں نے ڈانٹ کر یا پٹائی کر کے انہیں زبردستی اسکول بھیجا تھا ،، وہ مائیں ذھنی اذیت اور پچھتاوے کی وجہ سے ذھنی مریض بن چکی ھیں ،جبکہ والد دھری اذیت میں مبتلا ھو چکے ھیں ،ایک طرف ان کا غم بھی ماں کے غم سے کم نہیں اور انہیں خود دلاسے کی ضرورت ھے مگر دوسری جانب وہ بیچارے ماؤں کو سہارا دیتے پھرتے ھیں خود ان کے اپنے اندر درد کی لہریں اور اشکوں کی نہریں بہہ رھی ھیں مگر وہ باھر سے صبر کا کوہ ھمالیہ بن کر بیوی کو اور بچ جانے والوں بیٹوں اور بیٹیوں کو سمجھاتے پھرتے ھیں ،، اور پتھر دل ھونے کے طعنے بھی سنتے ھیں کہ ” آپ کو تو بیٹے کا غم ھی نہیں ” آپ کے نزدیک تو گویا کچھ ھوا ھی نہیں ،،،

ڈھک لے اکھیوں وگدے اتھرو، کُج نہیں بنڑدا رویاں !
ایس حیاتی دے غم ڈاھڈے ،مُکدے نئیں او مویاں !
ایک ضرب المثل ھے کہ جس کی چیز جاتی ھے اس کا ایمان جاتا ھے ،، کیونکہ اس کا ایمان ڈانواں ڈول رھتا ھے ،کبھی ایک پہ شک کرتا ھے تو کبھی دوسرے پہ ،، سانحہ پشاور کے والدین بھی اسی کیفیت سے گزر رھے ھیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسلام ایک مکمل دین ھے جو انسانی زندگی کے ھر پہلو کو زیرِ بحث لاتا ھے اور اس کے بارے میں دو ٹوک ھدایات دیتا ھے ،، اس کی راتیں بھی اتنی ھی روشن ھیں جتنا کہ دن روشن ھوتا ھے ، لہذا اس دین سے وھی بھٹکتا ھے جو روحانی خُودکشی کرنا چاھتا ھے
اور خود کو جان بوجھ کر ھلاک کرنا چاھتا ھے ،،
یہ بات اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمائی ( قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك . ( صحيح ) .
جب غزوہ احد میں 70 صحابہ شھید ھو گئے تو منافقین نے مسلمانوں کے خلاف زبان درازی اور طعنہ زنی شروع کر دی ،، انہوں نے کہا کہ اگر یہ ھمارا مشورہ مان لیتے اور مدینے کے اندر رہ کر لڑتے تو یوں مارے نہ جاتے ،، اس فوری جواب تو یہ دیا گیا کہ تم تو احد نہیں گئے لہذا اب تم کبھی نہ مرنا اور ھمیشہ جی کر دکھانا ،،، پھر کہا کہ جو مارے گئے وہ مرے نہیں اور نہ ان کو مرا ھوا سمجھو بلکہ وہ زندہ ھیں اور اپنے رب کے یہاں رزق دیئے جا رھے ھیں ،، خوشیاں منا رھے ھیں اور اپنے پچھلے لواحقین کو بشارت دے رھے ھیں کہ ان کو نہ تو کوئی خوف ھے اور نہ کوئی غم ھے ،، دوسرا جواب یہ دیا کہ اگر غزوہ احد نہ بھی ھوتا تو یہ لوگ کسی اور سبب سے اپنے مقتل کی طرف نکل پڑتے اور اسی جگہ جان دیتے جہاں اللہ نے لکھ رکھا تھا ،،
تیسری جگہ بحث کو سمیٹتے ھوئے ایمان والوں کو ھدایت دی کہ وہ ان لوگوں کی بات پہ بالکل کان نہ دھریں جو یہ کہتے ھیں کہ اگر یہ لوگ مدینے سے باھر نہ نکلتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے ،، یہ خیال ان کے دل میں حسرت پیدا کرتا ھے اور اللہ اس حسرت کی آگ کو ان کے لئے دنیا میں عذاب بنا دیتا ھے جبکہ مومنوں کو معلوم ھونا چاھیئے کہ زندگی اور موت کے فیصلے اللہ کرتا ،، (( ياأيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين كفروا وقالوا لإخوانهم إذا ضربوا في الأرض أو كانوا غزى لو كانوا عندنا ما ماتوا وما قتلوا ليجعل الله ذلك حسرة في قلوبهم والله يحيي ويميت والله بما تعملون بصير ( 156 ) ولئن قتلتم في سبيل الله أو متم لمغفرة من الله ورحمة خير مما يجمعون ( 157 ) ) ( ولئن متم أو قتلتم لإلى الله تحشرون ( 158 ) ) آل عمران
کسی جان کی ھمت نہیں کہ وہ مر جائے مگر اللہ کے طے کردہ وقت پہ ( وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَابًا مُّؤَجَّلاً ) آل عمران 145 ،، ان بچوں نے اس وقت مرنا ھی تھا ،چاھے چھت گر جاتی اس کے نیچے دب کر مر جاتے ،، یا بس کو حادثہ پیش آ جاتا ،، یا آتش زدگی ھو جاتی ،، دنیا والوں کے لئے یہ حادثے ایک سبب بن جاتے ھیں جبکہ مومن جانتا ھے کہ اسباب پردے کے سوا کچھ نہیں ،،،،
یوں یہ تو ثابت ھو گیا کہ ان بچوں کی زندگی ھی اتنی تھی ،مگر قاتلوں نے اپنا منہ کالا کیا ، ایسا نہیں کہ ان کو معلوم تھا کہ ان بچوں کی زندگی اتنی ھے اور وہ اللہ کا حکم سمجھ کر ان بچوں کو قتل کرنے پہنچے تھے ، وہ اپنے بدبودار منصوبے کے تحت آئے تھے اور باھوش و حواس ایک جرم کا ارتکاب کیا جس کی سزا وہ ان شاء اللہ دنیا اور آخرت میں پائیں گے ،،
کسی بھی واقعے یا حادثے سے پہلے انسان کو احتیاطی اقدامات سے روکا نہیں گیا بلکہ احتیاط کی تلقین کی گئ ھے ،،، مگر جب کوئی حادثہ یا واقعہ ھو جاتا ھے تو پھر مومن اگر مگر کی دلدل میں نہیں پھنستا بلکہ وہ کہتا ھے کہ جو اللہ کی مشیئت تھی وہ ھو گیا ،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ لفظ ” اگر ” شیطان کے لئے دروازہ کھول دیتا ھے ، یعنی ایمان کے ڈاکو کے لئے دروازہ کھول دیتا ھے اور وہ مومن کے قلب میں داخل ھو کر اس کا وھی حشر کرتا ھے جو ایک ڈاکو کسی کے گھر میں داخل ھو کر کرتا ھے ،، وہ سب سے قیمتی متاع ایمان پر پہلے ھاتھ ڈالتا ھے ،پھر انسان کو پچھتاوے کے عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے نکل جاتا ھے ،، صبر انسان کو اس منزل پہ پہنچاتا ھے جہاں ساری زندگی سر سجدے مین رکھے رھے تب بھی نہیں پہنچ سکتا اور جو منزل و مقام صبر کا ھے وہ نبیوں کو بھی صبر کے ذریعے ھی حاصل ھوا ھے نماز روزے سے ھاصل نہیں ھوا ،، حضرت ابراھیم خلیل اللہ ،حضرت اسماعیل ،، حضرت یعقوب و یوسف ،حضرت ایوب و سلیمان علیھم السلام اور خود ھمارے نبئ کریم ﷺ پر اسی قسم کے قیامت خیز واقعات گزرے ھیں ،، فرشتے اھل جنت کو صبر پر جنت کی بشارت سنائیں گے والملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب، سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار،،،،،”
اب آیئے اس پاکیزہ خون کے اثرات کی طرف ،، اس خون نے 20 کروڑ انسانوں کے ایک ھجوم کو ایک قوم میں تبدیل کر دیا ،، اس پاک خون نے مخمصے میں پھنسی ھوئی قوم کو ایک اجتماعی ارادے کی قوت بخشی ،، اس پاک خون نے اس مذھبی طبقے کی زبانوں کو گنگ کر کے رکھ دیا جو ان عفریتوں کو ” اگر مگر ” کے سنہری مذھبی غلاف میں لپیٹ کر تحفظ فراھم کرتا تھا ،، یہ سانحہ ایک جمپ اسٹارٹر تھا جس نے شکوک و شبہات کی دلدل مین پھنسی قوم کو نکال کر صراطِ مستقیم پر لا ڈالا اور بھیڑ کے لباس میں ملبوس ان بھیڑیوں کو ختم کرنے کا عزمِ نو بخشا ،، سلام ھے اس خون کو اس ان لوگوں کو کہ جن کو اس امتحان کے لئے چنا گیا ،،یہ ملک اور یہ قوم اپنی آنی والی تاریخ میں کبھی بھی اس خون کو بھول نہیں سکے گی ،،
گزرے کل کے 14 اگست نے پاکستانی قوم کو 1947 کی قوم نہیں بنا دیا ؟ خیبر سے کراچی اور گوادر سے چکوٹھی تک یہ تبدیلی سب نے محسوس نہیں کی ،، کہ پشاور حادثے نے قوم کے اندر سوئی ھوئی قوم کو جگا کھڑا کیا ھے ،، اور اس قوم نے جس طرح ھندو اور انگریز کو شکست دی تھی اسی طرح دھشت گردوں کو بھی ان کے انجام تک پہنچا دیا ،، غزوہ موتہ کے بطن سے غزوہ تبوک نے جنم لیا تھا ،،،،،،، یہ ھی قوموں کی سنت ھے ،،
Qari sb Salam , Peshawar sy Lakh raha hon last year APS man jo attack howa ta jis man kafi bachy shaheed hoy ty mera b ta un ki mathers kehty hy k agr us din unky bachy school na gay hoty to o bach jaty. App ki ray kiya hy for your reply please
Ghayas Us_ Din Afridi