ملحدین کی فکری پس ماندگی !!
ان اللہ علی کل شئ قدیر ،،،،،،،،،،،،
مجھے بیک وقت دو علماء کی طرف سے یہ سوال آیا ھے ،غالباً اس سوال کو ملحدین نے فلوٹ کیا ھے ،،
اللہ جب ھر چیز پہ قادر ھے تو کیا وہ جھوٹ بولنے پہ قادر ھے ؟
بے شک اللہ اپنی خدائی چلانے کے لئے ھر صلاحیت سے مالا مال ھے اسے اپنی مخلوق کے لئے کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں ھے ،، مگر اس ” کُل ” کے نام پر کوئی اللہ پاک سے عبث کام نہیں کروا سکتا کیونکہ اللہ پاک بامقصد کام کرتا ھے بے مقصد یعنی عبث کام سے وہ بری ھے ، وہ حق ھے اور حق کہتا اور حق کرتا ھے ،، اسی ” کُل ” کو استعمال کر کے لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا اللہ جھوٹ بول سکتا ھے ،اور اگر جھوٹ نہیں بول سکتا تو پھر ” ھر چیز پر قادر تو نہ ھوا ،،کم از کم جھوٹ بولنا تو اس کی قدرت سے باھر ھو ھی گیا ،، پھر ملحدین کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ ” سیکس ” پر قادر ھے ،، اگر ھے تو وہ مرد ھے یا عورت ؟ اور اگر نہیں ھے تو سیکس بھی اس کی قدرت سے باھر ھوا تو گویا ” ان اللہ علی کل شئٍ قدیر ” دعوی تو جھوٹ نکلا ( معاذاللہ ،ثمہ معاذاللہ نقلِ کفر ، کفر نباشد ) مجھے یہ باتیں آج کھل کر لکھنے پر مجبور ھونا پڑا ،،،،،،،، اس قسم کے سوالات اور اعتراضات بتاتے ھیں کہ ایک خالق کے ھونے اور اس پر ایمان لانے یا نہ لانے کے موضوع پر ملحدین کس ذھنی اور اخلاقی دیوالیئے پن کا شکار ھیں اور جو لوگ ان کے پیچھے لگے ھوئے ھیں وہ کس مقام پہ کھڑے ھیں ،
الجواب !
اللہ پاک کی کوئی جنس نہیں کیوں کہ وہ جنسوں کے ملاپ سے وجود میں نہیں آیا ، وہ ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا ،، عقل اس کے ھونے کو واجب قرار دیتی ھے اور تصور اس تک پہنچنے سے عاجز ھے ، وہ اپنے ھونے میں وجود کا بھی محتاج نہیں ،ھم اپنے ھونے میں وجود کے محتاج ھیں ، سننے کے لئے کان کا محتاج نہیں اور پکڑنے کے لئے ھاتھ کا محتاج نہیں ، دیکھنے کے لئے آنکھ کا محتاج نہیں وہ” احد ” اس لئے ھے کہ اُس کے پارٹس نہیں ،، وہ واحد اس لئے ھے کہ اس جیسا کوئی نہیں ،نہ وہ جنا گیا ھے کہ والدین اس جیسے ھونگے اور نہ اس نے کسی کو جنا ھے کہ اولاد اس جیسی ھو گی ،، وہ جس کو پیدا کرتا ھے وہ اس کی مخلوق و تخلیق ھوتا ھے اس جیسا ھونا محال ھے کہ جو ھمیشہ سے ھو ،، ایسی ھستی بس وھی ایک ھے ، جھوٹ بولنا عیب ھے اور وہ بے عیب ھے اس لئے جھوٹ نہیں بولتا ،، جھوٹ ڈر اور خوف ،، نیز لالچ اور مطلب براری کے لئے بولا جاتا ھے ، اللہ پاک کو نہ کسی کا ڈر ھے اور نہ کسی کا خوف ھے اور نہ ھی اسے اپنے کسی ایکشن کے ری ایکشن کا ڈر ھوتا ھے ، وہ اپنا مقصد خود پورا کر لیتا ھے اور ھر چیز اس کے مقصد کو پورا کرنے میں بطور ” Tool ” استعمال ھونے کو ترستی پھرتی ھے ، ان اللہ بالغ امرہ ،، لا یُسئل عما یفعل ” ولا یخاف عقبٰھا ” وہ سیکس سے پیدا نہیں ھوا اور سیکس سے پیدا کرتا بھی نہیں ھے ،حکم سے پیدا کرتا ھے ، لہذا اس کی کوئی سیکس نہیں جب اس کی باڈی ھی نہیں تو پھر سیکس کے بارے میں سوال ایک احمقانہ سوچ پر مبنی ھے ،، وہ ھمیں سمجھانے کے لئے ھمارے پاس موجود اعضاء سے مثال دے کر سمجھاتا ھے جبکہ ” لیس کمثلہ شئ ” وہ جب دیکھتا ھے تو آنکھ سے نہیں دیکھتا پوری ھستی سے دیکھتا ھے ، وہ زبان سے نہیں بولتا پوری ھستی سے کلام فرماتا ھے اور کان سے نہیں سنتا پوری ھستی سے سنتا ھے ، اس نے اپنے آپ کو بادشاہ کہا ھے لہذا وہ بادشاہ ھے ملکہ نہیں ،، وہ مذکر سماعی ھے ،جو بلا اصول مذکر ھوتا ھے ،مثلاً چاند مذکر سماعی ھے امریکہ والوں نے وھاں جا کر اس کے ” Sex Organs ” نہیں ڈھونڈے ،، سورج مؤنث سماعی ھے کسی کو اس کے ” Female Organs ” کی تلاش نہیں ھے ،، اس قسم کی باتیں مُلحدین کی ذھنی و اخلاقی پستی کی آئینہ دار ھیں ،،،،،،،،
اللہ ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے ،،
اللہ پاک نے جہاں بھی یہ جملہ فرمایا ھے اس سے قبل کچھ کام گنوائے ھیں اور آیت کے آخر میں فرمایا ھے کہ ،، یہ جو وعدے اللہ پاک تم سے کر رھا ھے ،یہ کُل کے کُل پورے کرنے پر وہ پوری قدرت رکھتا ھے ،وہ تمہاری طرح عاجز نہیں ھے کہ صدقِ دل سے وعدہ کر بھی لو تو اسباب و مواقع تمہارے بس میں نہیں ھوتے ،جبکہ اللہ پاک اسباب و مواقع کا پابند و مجبور نہیں بلکہ ان کا بھی خالق ھے ، وہ جب ارادہ فرما لیتا ھے تو اسباب قطار باندھ کر اس کے آگے عاجزی سے کھڑے ھو جاتے ھیں ، اور اس کے حکم کی پابندی کرتے ھیں ،نفعے کے اسباب سے نقصان اور نقصان کے اسباب سے نفع اس کے حکم کے تحت ھوتا ھے ،،،،،،، وہ خود فرماتا ھے کہ ” لیس کمثلہ شئ” اس جیسا تو دور کی بات اس کی مثل جیسا بھی کوئی نہیں اور نہ ھی اس کی ضرورت ھے ،، اور جس چیز کی ضرورت نہ ھو اس کی تخلیق عبث ھے اور وہ عبث کام نہیں کرتا ،،
جہاں تک لفظ ” کل ” کا مغالطہ ھے تو اللہ پاک نے ملکہ بلقیس کے بارے میں قرآن میں فرمایا ھے کہ ” و اوتیت من کل شئٍ ” اس کو ھر چیز دی گئ ھے ،، اس سے مراد بادشاھی چلانے کے سارے وسائل و اسباب مراد ھیں ،، اس ” کُل "میں یہ بات ھر گز شامل نہیں ھے کہ اس کو ” داڑھی مونچھ ” بھی دی گئ ھے ،،
اللہ پاک نے فرمایا ھے "تدمر كل شيء بأمر ربها فأصبحوا لا يرى إلا مساكنهم كذلك نجزي القوم المجرمين ( الاحقاف 25 ) اس ھوا نے اپنے رب کے حکم سے ھر چیز تباہ کر دی ، سوائے ان کے مساکن کے کچھ نظر نہیں آتا ،ھم مجرم قوم کو اسی طرح بدلہ دیتے ھیں ،، اب اس "کُل "سے کل ذی روح مراد ھے ،،، نہ کہ واقعی ھر چیز یعنی پتھر ،ریت بجری ،،