جب گاڑی اسکریپ میں کھڑی ھو تو ضرورت مند وقت کے ساتھ ساتھ آتے جاتے ھیں اور اپنی ضرورت کا پرزہ لے کر چلتے بنتے ھیں ،خرادیئے کا کام بھی چلتا رھتا ھے اور مجرد ایک گاڑی سیکڑوں گاڑیوں کو روان دواں رکھنے میں ممد و معاون ثابت ھوتی ھے اور خود آئستہ آئستہ گھُلتی جاتی ھے ،،،،، یہی حال تاریخ میں احادیث کے ساتھ کیا گیا ھے اللہ کے رسول ﷺ کے ایک بلیغ خطاب کے ٹکڑے کر کے محدثین نے اپنی ضرورت کے موضوعات کو ثبوت فراھم کیا ،،یوں اپنے منبع سے کٹ کر وہ حدیث کچھ کی کچھ ھو گئ ،، بعض صورتوں میں تو جو بات اللہ کے رسول ﷺ پہنچانا چاھتے تھے وہ امت تک 180 ڈگری الٹ پہنچی اب پوری امت اٹھ کر اس حدیث کے دوسری طرف جا کر اس کی ٹھنڈک محسوس کرنے سے رھی ،،
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا ایک موقف ترجمے یا Heading کی صورت میں لکھا ،پھر اس کو کسی آیت سے سپورٹ دی ورنہ حدیث میں سے جتنا ٹکڑا ان کے موقف کے ثبوت کے لئے درکار ھوتا تھا بس اتنا حصہ کاٹ کر لے لیتے ھیں ،، دوسرے محدثین نے بھی اسی ٹکڑے کو اپنا موضوع بنا لیا ،، اور یوں بات کچھ سے کچھ ھوتی چلی گئ ،، اسی طرح کلام اللہ کے ساتھ ھمارے علماء نے کیا ،، ایک آیت اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر اٹھائی اور اسے ایک نیا ھی مفھوم پہنا کر اس کے ساتھ ایک روایت جوڑ کر اسے پورا کر لیا ،، پچھلا پورا رکوع بس تلاوت کے لئے ھی رہ گیا ،، اب بھی قرآن کی سمجھ پورے خطبے کو سامنے رکھ کر ھی لگتی ھے ،، روایتوں کی ٹانگوں پہ قرآن کو کھڑا کر کے ھم نے اس کی قوت کو ھی زائل کیا ھے قرآن کی کوئی مدد نہیں کی ،،،،،،،،،،،،،،،،،
1- یہ ھے وہ مکمل حدیث جس کا ایک ٹکڑا لے کر اسے نیا مفھوم پہنایا گیا اور سامری کا بچھڑا تیار کر لیا ،،،، حضور ﷺ فرما کیا رھے ھیں اور امت تک مفھوم کیا پہنچایا جا رھا ھے ،،
عن أبی منیب الجرشی، عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت بالسیف حتی یعبد اللّٰہ لا شریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذلۃ، والصغار علی من خالف أمری، ومن تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم۵۱۱۴)
میری بعثت تلوار کے ساتھ کی گئ ھے ،یعنی میں صرف تبلیغ کر کے نہیں چلا جاؤں گا بلکہ اس کے لئے تلوار بھی استعمال کرونگا یہانتک کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے،، یہ پہلا پالیسی بیان ھے ،، اور یہ ٹھیک اسی طرح پورا ھو کر رھا ،،،
میرا رزق میرے نیزے کے نیچے رکھ دیا گیا ھے ،، یعنی پہلی دفعہ مالِ غنیمت کو حلال قرار دے کر نبئ کریم ﷺ کا حصہ اس میں مقرر کیا گیا ،، اور اب میرے گھر کا چولہا اسی مالِ غنیمت سے جلے گا ،،
میرے مخالفین کی ذلت اور رسوائی ھو کر رھے گی ، اس کو طے کر دیا گیا ( کتب اللہ لاغلبن انا و رسلی )
اس دوران یعنی حالتِ جنگ میں جو بندہ ھماری مخالف قوم کے مشابہ ھوا اور ھمارے ھاتھوں مارا گیا تو اس کا نہ کوئی قصاص ھو گا نہ دیت ھو گی وہ اسی دشمن قوم کا فرد سمجھا جائے گا ( لہذا لوگ اب سوچ سمجھ کر ھمارے مخالفین کے یہاں آنا جانا رکھیں ،رات کے شب خون میں اگر کوئی مشابہت میں مارا گیا تو کوئی قبیلہ دعوئ دیت و قصاص نہیں کر سکے گا ،،،،،،،،،،،
اب یہ پوری حدیث ایک ھی پالیسی اسٹیٹ منٹ ھے ،، اس میں شلوار قمیص یا کوئی اور چیز زیرِ بحث نہیں ھے ،، امام ابوداؤد اس میں سے تشبہ کا ٹکڑا کاٹ کر اپنے کتاب اللباس کے لئے لے گئے ھیں اور باقی حدیث چھوڑ گئے ھیں بس وھاں سے ایک الگ حدیث بن کر رہ گیا اور الگ ھی صورت اختیار کر گیا ،،، یہ سامنے کی بات ھے کہ دور دور تک حضورﷺ کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی جو اس میں سے نکال لی گئ اور ایک جنگی صورتحال کے حکم کو عام سماج پر مسلط کر دیا گیا ،،،،
اس تشبہ کا عملی نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب حضرت حذیفہؓ ابن یمانؓ کے والد یمانؓ غزوہ احد کی افراتفری میں کفارِ مکہ سے مشابہت کی وجہ سے خود مسلمانوں کے ھاتھوں شھید ھوگئے ،، جبکہ ان کے بیٹے حذیفہؓ پکارتے رہ گئے کہ یہ میرے والد ھیں ،،
علامہ انور شاہ کشمیری کی تحقیق
تشبہ بالکفار کی ممانعت کے بارے میں نہایت ہی نتیجہ خیز گفتگو صاحبِ انوار الباری نے حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی نقل کی ہے۔
فرمایا: شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضروری ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے، یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتدا میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا ،یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت کی صاحبِ شرع صلی الله علیہ وسلم نے صراحت کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری: 5/ 101، فیض الباری: 2/15)
تشبہ سے متعلق اکابر علمائے دیوبند کے فتاویٰ
لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے اس کے بارے میں ہمارے علمائے دیو بند نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی راہ نمائی کی ہے، جن میں سے کچھ منتخب فتاویٰ نقل کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت (اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اس)کا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کی وجہ سے ناجائز نہیں ہوتی، اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔
پتلون پہننے کا حکم
سوال: دور ِ حاضر میں پتلون اور شرٹ پہننے کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا، نیز! قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیازی نشان نہیں تھا، یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منھم میں جس مشابہت کا ذکر ہے، مشابہتِ لباس اس میں داخل نہیں ہے، اس لیے پتلون اور شرٹ کا پہننا جائز معلوم ہوتا ہے، جناب اپنی تحقیق فرما کر ممنون فرمائیں، بینوا توجروا․
الجواب باسم ملھم الصواب:
آج کل کوٹ پتلون وغیرہ کا اگرچہ مسلمانوں میں عام رواج ہو گیا ہے، مگر اس کے باوجود اسے انگریزی لباس ہی سمجھا جاتا ہے، بالفرض تشبہ بالکفار نہ بھی ہو تو تشبہ بالفساق میں تو کوئی شبہ نہیں، لہٰذا ایسے لباس سے احتراز ضروری ہے۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیاز نہ تھا، نیز! اگر کسی زمانہ یا کسی علاقہ میں امتیاز نہ ہو تو وہاں تشبہ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو گا، یہ مسئلہ تو وہاں پیدا ہو گا، جہاں غیر مسلم قوم کاکوئی مخصوص لباس ہو، احادیث میں غیر مسلموں کے مخصوص لباس سے ممانعت صراحةً وارد ہوئی ہے۔
یہ تفصیل اس لباس کے بارے میں ہے، جس سے واجب الستر اعضا کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو، اگر پتلون اتنی چست اور تنگ ہو اس سے اعضا کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو، جیسا آج کل ایسی پتلون کا کثرت سے رواج ہو گیا ہے… تو اس کا پہننا اور لوگوں کو دکھانا اور دیکھنا سب حرام ہے، جیسا کہ ننگے آدمی کو دیکھنا حرام ہے۔
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ: (قولہ: ولا یضر التصاقہ) أي: بالإلیة مثلاً، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علیٰ السبب وعبارة شرح المنیة: أما لو کان غلیظاً لا یریٰ منہ لون البشرة إلا أنہ التصق بالعضو، وتشکل بشکلہ، فصار شکل العضو مرئیاً، فینبغي أن لا یمنع جواز الصلاة لحصول الستر إلخ․ قال ط: وانظر ھل یحرم النظر إلیٰ ذلک المتشکل مطلقاً أو حیث وجدت الشھوة إلخ․ قلت سنتکلم علیٰ ذلک في کتاب الحظر ․ والذي یظھر من کلامھم ھناک ھو الأول․ (ردالمحتار)
وقال أیضاً: وعلیٰ ھٰذا لا یحل النظر إلیٰ عورة غیرہ فوق ثوب ملتزق بھا یصف حجمھا، فیحمل ما مر علیٰ إذا لم یصف حجمھا، فلیتأمل․ (ردالمحتار) واللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ أعلم․(احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحة،پتلون پہننے کا حکم: 8/64، 65، ایچ ایم سعید)
مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت
سوال: زعفران یا عصفر کے سوا تمام رنگ مرد کو شرعاً جائز ہیں، لیکن بعض علاقوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑے عورتوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں اور سفید کپڑے مردوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں، کیا ان علاقوں میں مرد کو مختص بالنساء رنگوں کے کپڑے اور عورتوں کو مختص بالرجال رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملھم الصواب: مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ اختیار کرنا جائز نہیں، اس لیے ان علاقوں میں اس شعار کی رعایت رکھنا ضروری ہے ، ایک دوسرے کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظرو الاباحة ، مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت: 8/66، 67، ایچ ایم سعید)
ٹائی کا استعمال
سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدیدہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔
اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں کہ: ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے، مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے، لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ، کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی اس سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:
”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللہ تعالیٰ عنہما ) قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”من تشبہ بقوم أي: من شبہ نفسہ بالکفار، مثلاً: في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو بالفجار، أو بأھل التصوف والصلحاء الأبرار․”فھو منھم“، أي : في الإثم والخیر“․(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: 4347، 8/155، رشیدیة)
البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا، بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔(فتاویٰ محمودیہ،باب اللباس، ٹائی کا استعمال: 19/290، ادارة الفاروق)
ساڑھی پہننے کاحکم
سوال: تشبہ لباس وغیرہ کے بارے میں ایک استفسار یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پیچ دار پائجامہ اور ساڑھی جائز ہے یا نہیں؟ اور موٹی ساڑھی پہن کر نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً:
جہاں یہ کفارو فساق کا شعار ہے، وہاں ناجائز ہے۔ جہاں عام ہے، ان کا شعار نہیں، وہاں جائز ہے۔پھر اگر پردہ پورا ہو تو اس سے نماز بھی درست ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب․ (فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، فساق و فجار کا شعار: 19/290، ادارة الفاروق)
مزید یہ کہ:تشبہ بالکفار کے موضوع پر اردو زبان میں سب سے تفصیلی بحث حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب نے کی ہے، حضرت اقدس نے اسلامی تہذیب و تمدن المعروف ب ”التشبہ فی الاسلام“ کے نام سے کم وبیش تین سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے، اس کتاب کے بارے میں حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”تشبہ کا مسئلہ ایسا مدلل اور مکمل لکھا ہوا میں نے نہیں دیکھا، جن لطائف تک ذہن جانے کا احتمال تک نہ تھا، وہ منصہٴ شہود پر آگئے ہیں، بعید سے بعید شبہات کاقلع قمع کر دیا گیا ہے۔“ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن: 5/35،مکتبة الاحرار، مردان)
اس کے علاوہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے بھی اس موضوع پر اپنی مایہٴ ناز تصنیف ”سیرتِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم “ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ، جو الگ مستقل رسالہ کی صورت میں بھی”التنبہ علیٰ ما فی التشبہ“ کے نام سے مطبوع ہے۔
مذکورہ بالا تحریر میں بالخصوص انہی کتب سے اور بالعموم کچھ دیگر کتب سے خلاصةً تشبہ بالکفار کے موضوع پر کلام کیا گیا ہے ۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کو اپنانے والا اور اسلام دشمنوں کے طریقوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!