ایک عیسائی نے میرے مسلمان دوست کو میسیج کیا ھے ، اس میسیج کے علاوہ بھی میں نے یہ دلیل کئ عیسائی پوسٹیں میں پڑھی جو ان کے نزدیک ناقابل شکست دلیل ھے اور جس سے ان کے بقول یہ ثابت ھوتا ھے کہ قرآن سابقہ آسمانی کتابوں کا ھی چربہ اور ” ادبی سرقہ "،،،،،،،،،،
اعتراضات کچھ اس طرح ھیں کہ،،
1-قرآن میں زیادہ تر سابقہ پیغبروں کے واقعات کیوں ھیں ؟
2- قران میں موسی علیہ السلام کا ذکر درجنوں بار آیا ھے جبکہ محمد ﷺ کا ذکر 4 بار آیا ھے،،
3- قرآن میں عیسی علیہ السلام کا ذکر درجنوں بار آیا ھے محمد ﷺ کا ذکر 4 بار آیا ھے،،
4- قرآن میں مریم کا ذکر ھے خدیجہؓ یا فاطمہؓ کا نہیں ھے ،،
5- قرآن میں مریم کے نام پر سورت ھے ،، عائشہؓ کے نام پر کوئی سورت نہیں ،،،
6- جب بنی اسرائیل کی بات آئی ھے تو سورت رکوعوں کے حساب سے لمبی ھو گئ ھے اور جب اپنے خاندان قریش کی سورت بنانی پڑی ھے تو 4 آیتوں میں ھی بس ھو گئ ھے ،،،،،،
ان تمام حقائق سے پتہ چلتا ھے کہ ان واقعات کو سابقہ کتابوں سے اٹھا کر الفاظ اور جملوں کی ترتیب تبدیل کر کے قرآن بنا لیا گیا ھے ،،،،،،،،،،،،،،
الجواب بعون اللہ تعالی ،،،
اصل میں یہود و نصاری نے اپنے رسولوں کو مجرم بنا رکھا تھا ،،
1- ان پر محرمات سے بدکاری تک کے الزامات لگا رکھے تھے،، جیسا کہ یعقوب علیہ السلام
2- ھم جنس پرستی کے الزامات لگا رکھے تھے ،،( جس پر باقاعدہ فلم بھی بنائی گئ ھے عیسی علیہ السلام پر )
3- ان پر بت پرستی کے الزامات لگائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام ،،
4- ان پر شرک کے الزامات لگائے جیسے ھارون علیہ السلام پر بچھڑا بنا کر قوم سے اس کی پوجا کرانا ،،،،
5- مریم علیہ السلام پر بغیر نکاح یوسف نجار سے تعلق کا الزام لگایا ،،،
قرآن حکیم اللہ کی عدالت کی کارروائی ھے جس میں یہود و نصاری کے الزامات سے ان کے نبیوں کے دامن کو پاک کیا گیا ،،،،،یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ھے کہ عدالتی کارروائی میں زیادہ تر ذکر مدعی اور مدعی علیہ کا ھی ھوتا ھے ،یا گواھوں کا ھوتا ھے ،محمد ﷺ تو اس عدالتی کارروائی میں آسمانی جج کے ریڈر ھیں ،،، عدالتی کاروائی جو سیکڑوں سے بڑھ کر ھزاروں صفحات پر مشتمل ھوتی ھے اس میں جج یا عدالتی اہلکار کا ذکر دو چار بار ھی ھوتا ھے ،،،،،
گلہ تو ھم مسلمانوں کو کرنا چاھئے کہ ھمارے حصے کی کتاب کا دو تہائی بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاری کے اپنے رسولوں پر اچھالے گئے گند اور اس کی صفائی میں ھی صرف ھو گیا ھے ،،،،
قرآن میں سب سے پہلے تو الزامات لگانے والی قوموں کا اپنا کردار ،، پھر ان کی نفسیات سیکڑوں آیات میں بیان ھوئیں کہ یہ ان کی تکنیک تھی کہ جو گناہ کرتے تھے اسے کسی نہ کسی طرح روایتوں کے زور پر اپنے نبیوں میں ثابت کر دیتے تھے ،، تا کہ خود معصوم بن کر کہہ سکیں کہ اتنی بڑی بڑی ھستیاں جب گناھوں سے نہیں بچ سکیں تو ھم تو ھیں ھی کمزور انسان ،، اس کے لئے انہوں نے آسمانی کلام یعنی کتاب اللہ کو یرغمال بنا لیا تا کہ انبیاء کا اصلی کردار سامنے نہ آنے پائے ،عوام کی کتاب تک رسائی نہیں تھے وہ ان پڑھ کے انپڑھ صم بکم عمی تھے ،، یہ لوگ کتاب اللہ کے نام پر قصے کہانیاں ان کو لکھ کر دے دیتے تھے ( ومنهم أميون لا يعلمون الكتاب إلا أماني وإن هم إلا يظنون ( 78 ) فويل للذين يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا فويل لهم مما كتبت أيديهم وويل لهم مما يكسبون ( 79 ) البقرہ 78-79 ،،،،
کتاب اللہ ان کی پشتوں کے پیچھے تھی گویا یہ اس کو جانتے تک نہیں تھے ،، اس کے بعد یوسف علیہ السلام پہ الزام کو دھویا گیا کہ وہ بدکار نہیں تھے اور نہ انہوں نے اس عورت سے بعد میں شادی کی ،،،،،،،،،،،،،،،،
یونس علیہ السلام کو بری کیا ،، یعقوب علیہ السلام کو بدکاری کے الزام سے بری کیا اور انہیں صالح اور مخلص بندہ قرار دیا ،،قرآن میں جہاں جہاں بھی ان انبیاء کے ساتھ ” کان من الصالحین ،، کلۤ من الاخیار ،،مصطفین الاخیار ،،،،، عبدا شکوراً ،، عبادنا المخلصین ،، آیا ھے اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے الزامات کو رد کرتے ھوئے اصل میں ان نبیوں کی برأت نازل فرمائی ھے ، اور اس کو قیامت تک محفوظ کر دیا ھے تا کہ لوگوں کے اسلام قبول کرنے میں انبیاء کا کردار کوئی رکاوٹ نہ بنے ، یہی وجہ ھے کہ قرآن پڑھتے ھی عیسائی جھٹ مسلمان ھو جاتے ھیں کیونکہ رسالت اور رسولوں کے بارے میں اس کے شبہات ختم ھو جاتے ھیں اور حق نکھر کر صاف سامنے آ جاتا ھے ،جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا تھا وہ خدا کا صالح بندہ ثابت ھوتا ھے ،، اور ان کی ماں خدائی میں شریک نہیں بلکہ صدیقہ ثابت ھوتی ھے ،، ابراھیم علیہ السلام نے بیوی کے کہنے پہ دوسری بیوی اور بچے کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلا تھا بلکہ اللہ پاک کی طے کردہ اسکیم کے تحت اس خاندان کو بطور Asset یہاں لا کر محفوظ کیا تھا تا کہ جب بنی اسرائیل اپنے کرتوتوں کے سبب بانجھ قرار دے کر عہدہ امامت سے معزول کیئے جائیں تو ابراھیم کی ھی اولاد میں سے ایک نسل اس امامت کے بوجھ کو اٹھانے کے لئے دستیاب ھو ،،
محمد ﷺ تو خود قریش یعنی اپنے دشمنوں میں موجود تھے ، محمد ﷺ پر تو الزام ھی کوئی نہ تھا لہذا ان کے بار بار ذکر کی ضرورت بھی نہیں تھی ،، اللہ نے جہاں نام لینا بہت ضروری تھا اور لیئے بغیر چارہ نہیں تھا وھیں نبی پاک ﷺ کا نام لیا ھے ورنہ مختلف دلآویز خطابات سے پکارا گیا ھے ،،،
نہ حضرت خدیجہؓ پہ کوئی الزام تھا اور نہ ھی حضرت فاطمہؓ پہ کوئی دھبہ تھا ، جب حضرت عائشہ صدیقہؓ پہ بھتان لگا تو چند آیات ان کی برأت میں نازل ھو گئیں ،،،،
تعجب کی بات ھے کہ قرآن جو نبیوں کی عصمت بیان کرتا ھے اس کو ان کتابوں کا ادبی سرقہ قرار دیا جائے جن میں تحریف کر کے نبیوں کے کپڑے اتارے گئے اور انہیں ھر گناہ میں ملوث کیا گیا جن کو کوئی شریف آدمی اپنی اولاد کو بھی پڑھانا پسند نہیں کرتا جیسا کہ ایک برطانوی دانشور نے کہا تھا کہ اگر بچوں کے کردار کی حفاظت کرنی ھے تو بائیبل کو ان کی پہنچ سے دور رکھو ،،،،،،،،،،،،،، یہ ایسا ھی ھے جیسا کہا جائے کہ دن اصل میں رات کا چربہ ھے ،،