رزق میں تنگی و کشادگی اللہ پاک کی حکمت کے ساتھ ھوتی ھے ،اگر اللہ پاک سارے انسانوں کا رزق کھول دے تو دنیا کا نظام رک جائے اور کوئی سروس بھی دستیاب نہ ھو ،گلیاں گند سے بھری ھوں اور گٹر ابل رھے ھوں ،درزی کپڑے نہ سئیں اور نائی بال نہ بنائیں ،روٹی والا تندور پہ کھڑا نہ ھو اور ٹیکسی والا دستیاب نہ ھو ،، گویا اللہ کے الفاظ میں زمین پر انارکی پھیل جائے ،،
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ (27)﴾. [سورة الشورى].
اس کے بعد باری آتی ھے نظام ترسیل کی جو کہ عدل پہ مبنی ھونا چاھئے اگر کسی کے مقدر میں 100 لکھا ھے تو اس 100 کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ھونی چاھئے اور اگر ایک لاکھ لکھا ھے تو اس کے ذرائع دستیاب ھونے چاھئیں ،،تنگی اور گشادگی ذرائع سے ھی ھوتی ھے جس طرح اولاد بھی اللہ دیتا ھے مگر جبرائیل انگلی لگا کر بچہ آپ کے گھر چھوڑ کر نہیں جاتا ایک سسٹم کے تحت آتا ھے ،اگر سسٹم غلط جوڑ دیا جائے تو بچہ زنا اور ریپ سے بھی ٹھہر جاتا ھے گویا اس بندے نے سسٹم غلط جوڑا اور اپنا مقدر غلط جگہ ڈیلیور کروایا ،، یہی سب کچھ دیگر معاملات میں بھی ھوتا ھے ،، اگر اللہ نے کسی کے مقدر میں 100 لکھا ھے تو وہ سو اس کی دسترس میں ھے اگر دوسرا انسان اس کو چرا لے جائے تو اس کا محاسبہ ضرور ھو گا ،مگر یہاں تو غریب محروم رہ گیا ،موت بھی اللہ نے اپنے نام لگائی ھے کہ ” وما کان لنفسٍ ان تموت الا باذن اللہ ،کسی جان کی ھمت نہیں کہ اللہ کے اذن کے بغیر مر جائے ،پھر قاتل کو سزا کیوں ؟ اور قصاص کا قانون کیون؟ اس لئے کہ اگر قاتل اس کو قتل نہ کرتا تو بھی اس نے اسی وقت مرنا تھا ،مگر شاید گاڑی کے نیچے آ جاتا یا بجلی سے چمٹ جاتا ،، اب رہ گیا قاتل تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس بندے کو اللہ کی تابعداری میں مارا ھے کیونکہ اللہ نے اس کو اس بندے کی تقدیر کی کاپی شیئر کی تھی کہ جا کر اس کو مارا آؤ اس کا وقت پورا ھو گیا ھے ،، اس نے اپنے ارادے کے ساتھ جرم کیا ھے ارادے کی سزا پائے گا ،، اسی طرح رزق کی کمی بیشی کے اسباب کا معاملہ ھے