دین کے منصفو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جنت کے ضامنو ،،،،،،،،،،،
سماج کی جلتی کشتی میں ،روتے ھوئے عدل کا ساتھ تو دو !
جب انسان ریسلینگ دیکھ رھا ھو ،،،،،،،،،،،،،،
ان میں ایک پارٹی خیر قانونی حرکات کر رھی ھو ، فاؤل گیم کھیل رھی ھو اور ریفری بھی متعلقہ کرپٹ ٹیم کا ساتھ دے رھا ھو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تو بلا تفریق مذھب و ملت ، رنگ و نسل ، قوم و ملک ،، دیکھنے والوں کی ھمدریاں مظلوم ٹیم کی طرف منتقل ھو جاتی ھیں ،،،،، اور نفرت کرپٹ ٹیم کی طرف منتقل ھو جاتی ھے ،یوں ضوابط کا احساس کرنے والے ھار بھی جائیں تو بھی بیلٹ ظالم کو اور ھمدریاں مظلوم کو ملتی ھیں ،،،،،،،،،،،،، اس کو کہتے ھیں” Sense Of Justice ” یہ ھی فطرتِ سلیمہ بھی کہلاتی ھے اور یہی عدل کی حس انسانیت بھی کہلاتی ھے ،،
جن لوگوں میں یہ حس بھی نہ ھو اور وہ ظلم سے نفرت اور عدل سے محبت تو دور کی بات ظلم و زیادتی اور عدل و انصاف میں تفریق تک نہ کر سکیں ،، وہ مسلمان تو ھو سکتے ھیں ،، حاجی ،نمازی ، حافظ ، قاضی ،قاری سب کچھ ھو سکتے ھیں مگر وہ انسانیت کی چلتی پھرتی قبر ھوتے ھیں ، زندہ لاش جس میں انسانیت کی رمق تک نہیں ،،،، مجھے افسوس ھوتا ھے یہ کہتے ھوئے کہ ھمارے صم بکم عمی مذھبی طبقے کی ایک عظیم اکثریت پورا میانی صاحب کا قبرستان بن چکی ھے ،،
ان کے پاس ان کے کسی ساتھی کے ظلم کا شکوہ لے جاؤ اور ان سے درخواست کرو کہ جناب آپ انصاف سے فیصلہ کریں تو وہ بڑی انکساری سے کہہ دیں گے کہ جناب ھم تو بڑے کمزور لوگ ھیں ،، ھم کہاں انصاف کر سکتے ھیں ،اور جان چھڑا لیں گے ، صرف اس وجہ سے کہ ظالم کو ظالم کہہ دیا تو ھمارا ساتھی ھم سے ٹوٹ جائے گا اور جماعت میں توڑ پیدا ھو گا ،، یوں جماعت میں ایک سے بڑھ کر ایک بھیڑیا بے خوف بیٹھا ھو گا ،، نبئ کریم کا اسوہ مظلوم کی حمایت و نصرت کرنا تھا چاھے اس کی کوئی قیمت بھی ادا کرنی پڑے ،،
اراشی نام کا ایک تاجر مکے اپنے اونٹ بیچنے آیا ،،،،،،، ابوجھل نے اس سے ادھار اونٹ لے لئے مگر نہ اس کو پیسے دے رھا تھا اور نہ ھی اونٹ واپس کر رھا تھا ، وہ بندہ تقریباً ایک ماہ تک بے یار ومددگار دھائیاں دیتا رھا ،،،،،،،،،، ایک دن خوش قسمتی سے نبئ کریم ﷺ حرم میں تشریف رکھتے تھے کہ اراشی قریش کی مجلس میں فریاد لے کر جا پہنچا کہ مکے کے باسی عمرو ابن ھشام نے مجھ پر ظلم کیا ھے کوئی ھے جو میرا حق مجھے دلا سکے ؟ قریش کے سرداروں کی نظر جو حضورﷺ پر پڑی تو ان کو تفریح کا آئیڈیا سوجھا ،، انہوں نے اراشی سے کہا کہ اگر کوئی بندہ تمہیں تمہارا حق دلا سکتا ھے تو صرف وہ آدمی ھے جو حطیم میں چادر اوڑھے بیٹھا ھے ،،،،،، اراشی نے اھل مجلس کا شکریہ ادا کیا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لپکا اور آپ ﷺ سے اپنی بپتا بیان کی کہ اس کے ساتھ کیسا ظلم ھوا ھے کہ اونٹ بھی چھین لئے گئے اور قیمت بھی کوئی نہیں ، اور ساتھ بتا بھی دیا کہ اھل مجلس نے بڑی امید دلائی ھے کہ آپ ھی یہ حق دلا سکتے ھیں ،، رسول اللہ ﷺ سمجھ گئے کہ قریش نے مسافر کے ساتھ مذاق کیا ھے ،، اللہ رسول ﷺ نے اراشی کا ھاتھ پکڑا اور فرمایا میرے ساتھ چل میں تجھے تیرا حق دلا دوں ،، قریش ھکا بکا رہ گئے انہوں نے ایک آدمی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ آپ ﷺ کے پیچھے جائے اور ابوجھل کی طرف سے حضورﷺ کی جو بھی خاطر تواضع کی جائے وہ بے کم و کاست آ کر اھل مجلس کو سنائے تا کہ مزے لئے جائیں ،،،،،،،،،
آپ ﷺ نے ابوجھل کے گھر کا دروازہ بجایا ،، اندر سے ابوجھل کی آواز آئی کون ؟ اللہ کے رسول ﷺ نے باوقار آواز میں فرمایا ” محمد ” ابوجھل نے دروازہ کھولا اور نبئ کریم ﷺ کے چہرہ اقدس کی طرف دیکھتے ھی اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ،، آپ نے فرمایا ” اس پردیسی کو اس کا حق ادا کرو ” اس نے کہا بس آپ مجھے تھوڑا وقت دیں میں ابھی اس کا حق ادا کرتا ھوں ، وہ جھٹ واپس آیا اور پوری رقم اس مسافر کو ادا کر دی ،، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر آئندہ کسی مسافر کے ساتھ ایسا ھوا تو انجام ٹھیک نہیں ھو گا ،، قریش کا مخبر دوڑا اور اس نے مجلس میں جاتے ھی اعلان کر دیا کہ بخدا عمرو ابن ھشام مسلمان ھو چکا ھے ، اس نے بڑے ادب کے ساتھ محمد ﷺ کی بات سنی اور فوراً مسافر کا حق ادا کر دیا اور محمد ﷺ نے اسے خوب ڈانٹا اور وہ چپ کر کے سنتا رھا ،،،،،،،،،،، تھوڑی دیر گزری تھی کہ ابوجھل بھی مجلس میں آ پہنچا جس پر پوری مجلس نے اس کو لعن طعن کی کہ وہ ان کو دھوکا دیتا رھا ھے جبکہ اندر سے وہ مسلمان ھو چکا ھے ،، اس نے قسم کھا کر مسلمان ھونے کی نفی کی اور کہا کہ محمدﷺ کے پیچھے ایسا خوفناک اونٹ کھڑا مجھے گھور رھا تھا کہ اگر میں انکار کرتا تو شاید اس مجلس میں نہ ھوتا وہ ایک نوالے میں ھی میرا سر تربوز کی طرح توڑ دیتا ،،،،،،،،،،،،
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوْ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا(النساء -135) ﴾ اے ایمان والو اللہ کے لئے عدل کو لے کر کھڑے ھو جاؤ ،حق کی گواھی دو اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف پڑے یا تمہارے والدین اور رشتے داروں کے خلاف پڑے ،، وہ امیر ھوں یا غریب ، اللہ دونوں صورتوں میں اولی ھے ،، اپنی خواھشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے منہ مت موڑو اگر تم آنا کانی کرو گے یا الفاظ کو مروڑو گے تو اللہ اس سب سے باخبر ھے تم کرتے ھو ،،
یہ حکم ھم چوتھی تراویح میں ھی سن لیتے ھیں مگر اس پہ عمل زندگی کے ساٹھ سال بھی نصیب نہیں ھوتا ،،،،،، کیا جواب دیں گے اللہ کو حشر کی عدالت میں ؟