اللہ کے رسول ﷺ خطباء کا تعین کرنے سے پہلے ان کا امتحان لے رھے تھے – ایک ایک کر کے خطیب چند جملوں میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ،، حضورﷺ تصویب فرماتے اور اگلے خطیب کو دعوت دیتے ،،
ایک خطیب نے خطاب شروع کیا ،، اما بعد من یطع اللہ و رسولہ فقد رشد و من یعصیھما فقد غوی ،، جملے کا مطلب 110٪ درست تھا اور صحابہؓ مطمئن بیٹھے تھے ان میں سے کسی نے حضور ﷺ کی طرف نہ دیکھا کہ آپ کا چہرہ اقدس سرخ ھو گیا ھے ،،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تو قوم کا بُرا خطیب ھے ،، بیٹھ جا ،، صحابہؓ اس شدید رد عمل پر چونک گئے کیونکہ نبئ کریم ﷺ کسی بندے کی اصلاح مجمعے میں اس پر اعتراض کر کے نہیں کیا کرتے تھے جب تک کہ دین کے حرام اور حلال کا معاملہ نہ ھو ،، پھر اس آدمی کی بات میں انہیں کوئی قابلِ اعتراض بات بھی نظر نہیں آ رھی تھی ،، گویا جو حضور ﷺ دیکھ رھے تھے وہ صحابہؓ کی نظر سے اوجھل رھا ، بات تب واضح ھوئی کہ یہ کتنا اھم معاملہ تھا کہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے وضاحت فرمائی ،، آپ نے فرمایا کہ ” قل من یعص اللہ و رسولہ فقد غوی ” کہہ کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ بھٹک گیا ،، تم نے مجھے اللہ کے ساتھ ایک ھی ضمیر میں کیونکر جمع کر دیا ؟ ( یعصیھما ) آج تم نے مجھے کلمے میں اس کے ساتھ داخل کر دیا ھے اور کل عبادت میں بھی داخل کر دو گے ،تم مجھے بھی ھلاک کرواؤ گے ؟ کیا تم نے اللہ کا غصہ نصاری پر نہیں سنا کہ جب انہوں نے عیسی کو اس کے ساتھ برابر ٹھہرایا تو اس نے غضب کے ساتھ فرمایا کہ اگر میں عیسی اور اس کی ماں اور زمین میں بسنے والے سارے ھلاک کر دوں تو مجھے کون پوچھ سکتا ھے ؟ يأتي رجل في صحيح مسلم والنبي صلى الله عليه و سلم يراقب فيقول من يطع الله و رسوله فقد رشد,, كلام جميل و من يعصيهما فقد غوى الصحابة كلهم لم يلاحظوا النبي صلى الله عليه و سلم قال بئس الخطيب أنت سبحان الله الكلام به شيء ! النبي صلى الله عليه و سلم على خلق عظيم وصفه الله يعني لا يجرح أحد وهو أمام الناس إلا لأمر شديد وخطب عظيم قال بئس خطيب القوم أنت ,,
من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصيهما فقد غوى قال لا تقل من يعصيهما قل من يعصي الله و رسوله
اليوم تدخلني معه في كلمة و غداً تدخلني معه في عبادة و أدخلتني معه في واو عطف جل جلاله وهو سبحانه و تعالى علواً كبيراً قادر أن يهلك المسيح ابن مريم و أمه ومن في الأرض جميعا إذا غضب رب العالمين سبحانه و تعالى،،،،
جو رسول ﷺ اللہ پاک کے ساتھ ایک ضمیر (Pronoun) میں ایک ساتھ شامل ھونے پر کانپ اٹھے ، لوگ کمال ڈھٹائی کے ساتھ اس اللہ کے واضح احکامات کے مقابلے میں ایک حدیث کوٹ کریں گے اور آگے لکھ دیں گے ،، اسنادہ حسن ، اسنادہ صحیح ، اسنادہ علی شرط بخاری ،، اس کا مطلب ھوا کہ چونکہ ھم قرآن کی سند لکھنے میں ناکام رھے لہذا اس کی کوئی ویلیو نہیں ،، قرآن کے مقابلے اسنادہ حسن کا مطلب تو یہ ھوا کہ قرآن کی سند ضعیف ھے ،،
فقہ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب کوئی کسی کو ایسی بات کہے کہ جس کا الٹ گالی بن جائے تو اس کو بہتان کے زمرے میں رکھ کر سزا دی جائے گی ، مثلاً کوئی عورت بچوں کی لڑائی میں دوسری عورت کو کہتی ھے کہ ” ھم نے بچے حرام کے پیدا نہیں کیئے ” یا ساڈھے بچے حرام دے نئیں ” تو اس کا صاف مطلب ھے کہ تم نے حرام کے پیدا کیئے ھیں لہذا اس بات کے گواہ مل جائیں تو کہنے والی کو حد ماری جائے گی ،، بالکل قرآن کو رواء کی قوت کے بل پہ دبانا اور اس کے احکامات کی مزاحمت کرنا خود اس کی روایت پہ سوال کھڑا کرنا ھے ،،،