ما كان لبشر أن يؤتيه الله الكتاب والحكم والنبوة ثم يقول للناس كونوا عبادا لي من دون الله ولكن كونوا ربانيين بما كنتم تعلمون الكتاب وبما كنتم تدرسون ..
کسی بشر کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ اسے کتاب دے اور حکمت عطا فرمائے اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ میرے بندے بن جاؤ،، بلکہ اس کا مشن یہ ھے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ ” رب والے ” بن جاؤ اس کتاب کی تعلیم و تدریس کے طفیل ، ( آل عمران )
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا( صحيح البخاري » كتاب الأحكام » باب السمع والطاعة للإمام ما لم تكن معصية
6725 حدثنا مسدد حدثنا يحيى بن سعيد عن عبيد الله حدثني نافع عن عبد الله رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة
حدثنا أبو محمد بن عتاب بقراءتي عليه ‘ حدثنا حاتم بن محمد ، حدثنا أبو الحسن علي بن محمد بن خلف ، حدثنا محمد بن أحمد ، حدثنا محمد بن يوسف ، حدثنا البخاري ، حدثنا عبدان ، أخبرنا عبد الله ، حدثنا يونس ، عن الزهري ، أخبرني أبو سلمة ابن عبد الرحمن ـ أنه سمع أبا هريرة يقول : إن رسول الله قال : من أطاعني فقد أطاع الله ، ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن أطاع أميري فقد أطاعني ، و من عصى أميري فقد عصاني .
~ قلت : حديث متفق عليه ، رواه البخاري .
،) کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ،،جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ،،،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروپ کو ایک امیر کے تابع ایک مہم پر بھیجا ،وھاں پہنچ کر اس گروپ میں کسی معاملے میں اختلاف ھوا ،، ان کے امیر نے غصے میں ان سے کہا کہ ” کیا رسول اللہ ﷺ نے تم سے میری اطاعت کا عہد نہیں لیا ؟ انہوں نے اقرار کیا کہ بالکل لیا ھے ،، تب اس امیر نے کہا کہ لکڑیاں اکٹھی کرو ،، جب لکڑیاں اکٹھی کر لی گئیں تو اس نے ان کو آگ لگائی اور جب آگ خوب بھڑک اٹھی تو اس امیر نے اپنے لشکریوں سے کہا کہ وہ آگ میں داخل ھو جائیں ،، اس پہ کچھ لوگ آگ کی جانب چل پڑے جبکہ کچھ لوگوں نے اس کا رستہ روکا ،، اور کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے ھی تو ھم مسلمان ھوئے تھے پھر بھلا آگ میں کیوں داخل ھوں ،،، اسی بحث مباحثے میں امیر صاحب کا غصہ بھی فرو ھو گیا اور اس نے اپنے احکامات واپس لے لئے ،،،،،،،،،،، واپس آ کر لشکریوں نے یہ ماجرا رسول اللہ ﷺ سے بیان فرمایا ، جس پر آپ نے فرمایا کہ جو لوگ امیر کے کہنے پر آگ کی طرف چل دیئے تھے اگر آگ میں داخل ھو جاتے تو قیامت تک آگ میں رھتے ،، لا طاعۃ لمخلوقٍ فی معصیۃ الخالق ،، خالق کی نافرمانی میں مخلوق میں سے کسی کی بات بھی نہیں مانی جائے گی ،،
اگر اللہ نے رسولوں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اللہ کے بندو کو اپنا بندہ بنائیں ،، بلکہ ان کی ذمہ داری یہ لگائی کہ وہ پکڑ پکڑ کر لوگوں کو اللہ سے ملائیں ،اللہ کے بندے بنائیں ،،،،،، اگر رسول اللہ ﷺ کے امیر کا بھی غیر شرعی حکم نہیں مانا جائے گا تو پھر اور کسی کا احسان بھی ھم پر اس حد کو نہیں پہنچا کہ ھم اس کے کہے پر صم بکم عمی آگ میں داخل ھو جائیں ،، ھم جن سے پڑھتے ھیں وہ ھم جیسے انسان ھیں اور ھر اس کمزوری کا شکار ھو سکتے ھیں جس کا شکار ھم یا دوسرے انسان ھو سکتے ھیں ،، ان کے کہے اور کیئے کو بھی کتاب اللہ پر ھی پرکھا جائے گا کیونکہ حق و باطل کی فرقان اور پہچان یہی کتاب ھے ،، اسی کے مطابق ناپ کر حشر میں حساب لیا جائے گا ،، وھاں ھماری دھائیاں کام نہیں آئیں گی کہ ” (وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا (الاحزاب 67) اے ھمارے رب ھم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے اکابر کی تو انہوں نے ھمیں رستے سے بھٹکا دیا ،، اللہ نے ھر شخص کو عقل دے کر حجت تمام کر دی ھے ،،