اللہ پاک نے اندھا دھند مرد کو قوام نہیں بنایا بلکہ اس کے دو اسباب بیان کئے ھیں !
1- بما فضل اللہ بعضھم علی بعض ،،، اس میں جسمانی بناوٹ جو مرد کو مشقت کا اھل ثابت کرتی ھے –
2- و بما انفقوا من اموالھم ،،، اور نان نفقہ روٹی مکان کپڑا مرد کی ذمہ داری قرار دی ھے ،، جو خرچ کرتا ھے وھی حساب کتاب لینے کا ذمہ دار ھے اور گھر کے فیصلے کرنے کا ،کیونکہ پیسہ اس نے خرچنا ھے تو اپنی جیب دیکھ کر فیصلے کرے گا ،،،،،،،،،،
جو مرد یہ صلاحیتیں کھو دیتا ھے ، وہ اپنی قوامیت بھی کھو دیتا ھے ،، یہ اسیطرح کی بات ھے کہ زید دیکھتا ھے کیونکہ اس کی دو آنکھیں ھیں ،،جب زید آنکھیں کھو دیتا ھے تو دیکھنا خود بخود کھو دیتا ھے ،، اب جو مرد سارا دن گھر لیٹا اینٹھتا رھے اور بیوی نوکری کر کے بچے پال رھی ھو تو اس صورت میں وھی قوام ھو گی جو کھلا رھی ھے اور مرد کو قوامیت بھی شرافت کے ساتھ عورت کو سونپ دینی چاھئے ،، ایسا نہیں ھو سکتا کہ وہ سارا دن کام کر کے گھر آئے اور آتے ھی نہار منہ قوام صاحب سے پھنیٹی کھائے پھر یونیفارم تبدیل کرے اور کھانا کھائے ،اب تو قوام کا مطلب پھینٹی لگانے والا سمجھا جاتا ھے اگر میاں بیوی دونوں کما رھے ھیں تو قوامیت بھی 50/50 ھو گئ ھے ،، اور اگر مرد کمائے بھی نہ اور نامرد بھی ھو تو پھر اس سے تو گھر کے کونے میں پڑا بوریا اچھا ھے ،کسی کام تو آتا ھے ،،،