توحید تو یہ ھے کہ خدا حشر میں کہہ دے !
یہ "بندہ ” دو عالم سے خفا میرے لئے تھا !
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ھے ،، و ھوالذی فی السماء الہ، و فی الارضِ الہ ۔۔۔
یہ اللہ وھی ھے جو آسمان میں بھی الہ ھے اور زمین میں بھی الہ ھے ،، پھر آسمان والوں میں اتنا شکتی مان ،طاقتور اور یکتا کیوں ھے کہ وھاں اسے کسی اور کو ٹھیکہ دینے کی ضرورت نہیں ،،،،،، اور زمین پر وہ بطور الہ اتنا کمزور کیوں ھو جاتا ھے کہ اپنا سب کچھ فرنچائز کر دیتا ، اور ڈپو تقسیم کر دیتا ،زمین پر وہ Manpower سپلائی کمپی کھول لیتا ھے کہ نو ماہ لگا کر انسان بنائے اور پھر اسے کسی خواجہ کو ٹھیکے پر دے دے ،، اسے کشکول دے کر کسی اور داتا کے دروازے پہ کھڑا کر دے ؟؟
وهو الله في السماوات وفي الأرض يعلم سركم وجهركم ويعلم ما تكسبون وما تأتيهم من آية من آيات ربهم إلا كانوا عنها معرضين ( الانعام )
رب کعبہ کی قسم سچ اور حق گلہ کیا ھے میرے پروردگار نے کہ ،،
-: { وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسماوات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون } ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کا حق بنتا تھا جبکہ زمینیں ساری اس کے قبضہ قدرت میں ھونگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے دائیں ھاتھ پہ لپٹے ھونگے ، وہ پاک ھے اور بلند ھے ان کے ٹھہرائے گئے شریکوں سے ،،
ان لوگوں کا دوسرا خناس یہ ھے کہ ان کے بزرگوں نے اللہ کی اتنی عبادت کر دی ھے کہ نہ صرف اس کا حق ادا کر دیا ھے بلکہ اللہ پر قرض بھی چڑھا دیا ھے ،، اب وہ مقروض اللہ ان کی ھر بات ماننے پر مجبور ھے ،، اور یہ بزرگ اپنا ڈلوایا ھوا بیلنس اپنے چڑھاوے چڑھانے والوں کو ایزی لؤڈ کرتے رھتے ھیں ،،،، جبکہ اللہ پاک کی نعمتوں کا نہ تو احصاء ممکن ھے اور نہ ھی ان کا بدلہ دیا جا سکتا ھے ، ساری انسانیت سجدے میں پیدا ھو ،، کروڑوں سال سجدے میں ھی پڑی رھے اور اسی حال میں مر جائے تب بھی وہ عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتی اور نہ اللہ کی نعمتوں کا بدلہ دے سکتی ھے ،، وہ تمہارے بزرگ بھی اللہ کے بندے تھے اور اپنی ذات کے ذمہ دار تھے ،حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت ان کے بیٹے کے کام نہ آئے گی ،، کیا لوگ اسی قرآن میں نہیں پڑھتے کہ ” بچو اس دن سے کہ جس دن کوئی جان دوسری جان کی طرف سے بدلہ نہیں دے گی اور نہ اس سے سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے جرمانہ قبول کیا جائے گا ،، ؟
{ وَاتَّقُوا يَوْماً لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئاً وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ } البقرة / 48
وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ(123-سورة البقرة)
اصل مسئلہ یہ ھے کہ قرآن آج مسلمان کا ریفرنس رھا ھی نہیں ھے ، وہ قصے کہانیوں کا مسلمان بن کر رہ گیا ھے ،، اور قرآن ثواب بنانے کی مشین ،،،،،،،،،