محبت ھر سزا برداشت کر سکتی ھے، مگر اپنی انسلٹ برداشت نہیں کرتی !
میڈے جذبِ جنوں دے خالق سُن – میں کُوں ھر گز قرب دوام نہ ڈے !
رکھ سقر ، ستم وچ بند میں کُوں – کوئی رحم نہ کر، آرام نہ ڈے !
میں کُوں دم دم آبِ حمیم پلا – بِن زھر زقوم طعام نہ دے !
جیویں دل آکھی ودا کر سرور- میڈے پیار کُوں پر الزام نہ ڈے !
اے اللہ گر تو چاھے تو مجھے میری عبادت اور ذکر و فکر کے بدلے سزا بھی دے سکتا ھے ، جن نعمتوں کا تو نے وعدہ کیا ھے ان سے مجھے محروم بھی کر سکتا ،،،،،،،
مگر میرے اندر محبت کی چنگاری رکھنے والا خدا ،،مجھے حشر میں یہ کہہ کر بدنام نہ کر دینا کہ یہ بندہ بس ٹافی لینے کے لئے میرے گھر میں بیٹھا رھتا تھا ،، اور آگ کے ڈر سے میرا ھاتھ پکڑے میرے قریب قریب رھتا تھا ،،،،،،،، تو بس اتنا اعلان کر دے کہ یہ بندہ گنہگار ھونے کے باوجود میری ذات سے محبت کرتا تھا ،،،، تیرے اس اعلان کے بعد میرے لئے ھر جگہ جنت ھے اور ھر حالت انعام ھے ،،
ایک صاحب تھے جو غیر سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے ،، ھر چیز کو ایزی لینے والے ،، ھنسنے مسکرانے والے ،،،،،، وہ جب کبھی نبئ کریم ﷺ کو غمگین دیکھتے تو اس کے دل پہ چھُریاں چل جاتیں ،، وہ کوئی نہ کوئی ایسا شگوفہ چھوڑ دیتے کہ اللہ کے رسول ﷺ مسکرا دیتے اور محفل بہار رُت بن جاتی ،، مگر ان میں ایک کمزوری بھی تھی کہ شراب کی تازہ تازہ حرمت کے باوجود وہ ابھی اس سے جان نہیں چھڑا سکے تھے ، کئ بار نشے میں پکڑے گئے اور درے بھی کھائے ،، ایک دفعہ ان کو پکڑ کر لایا جا رھا تھا کہ ان کو ھوش آ گیا ، انہوں نے دیکھا کہ حضرت عباسؓ اپنی حویلی کے صحن میں کھڑے نہا رھے ھیں ، انہوں نے جھٹکے سے خود کو چھڑایا اور دوڑ کر حضرت عباسؓ کو پیچھے سے جپھی ڈال لی ،، اب صحابہؓ ان کو گھسیٹتے تو ساتھ ساتھ حضرت عباسؓ بھی ادھر سے اُدھر پٹخے جا رھے تھے ،، نبی ﷺ کے چچا کے احترام میں صحابہؓ ان کو چھوڑ کر چل دیئے اور یہ اپنے گھر چلے گئے ،، صحابہؓ نے جا کر نبئ کریم ﷺ سے جا کر ان کی یہ حرکت بیان کی تو اللہ کے رسولﷺ ان کی اس حرکت پہ بیساختہ ھنس دیئے ،،، اور بات ختم ھو گئ ،، ان کو ایک دفعہ نشے میں لایا گیا اور صحابہ نے اپنی چادروں کے کولنے بنا کر ان کی پٹائی کر دی ،، اس کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ اللہ اس کو رسوا کرے یہ کتنی بار اس حالت میں لایا جاتا ھے ،،،،،،،، اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے ان صاحب کو ڈانٹ دیا کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد مت کرو ،، اللہ کی قسم میں اس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے والا پاتا ھوں ،،،،،، بس اس جملے نے وہ کام کیا جو کوڑے نہیں کر سکے تھے ،، ان صاحب کی کایا ھی پلٹ کر رہ گئ ،نبئ کریم ﷺ کے اس اعتراف کہ بعد کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ان کی محبت کا اعتبار ھے ، اور یہ محبت قبول کر لی گئ ھے ،، ان صاحب نے پھر زندگی بھر شراب کو منہ تک نہیں لگایا ،، کہ اس اعتراف کے بعد اب میرے عمل سے میرا محبوب بدنام ھو گا ،، پہلے مجرد میری ذات کا مسئلہ تھا ،، علامہ بدر عالم میرٹھی نے ترجمان السنہ میں اس حدیث کو اس عنوان کے ساتھ لکھا ھے کہ ” گنہگار کو بھی اللہ اور رسول ﷺ سے محبت ھو سکتی ھے !