کوئی گناہ کر کے جنت چلا جاتا ھے اور کوئی نیکی کر کے جھنم چلا جاتا ھے ،،،
ایک گنہگار سے کوئی گناہ سر زد ھو جاتا ھے تو وہ گناہ اس کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ھے ،، وہ توبہ توبہ کرتا رب کی طرف رجوع کرتا ھے ، اور جب بھی اس کا نفس یا شیطان اس کی نیکی کو مزین اور بڑا کر کے اسے دکھاتا ھے تو اس کا گناہ ٹھک سے اس کے سامنے آ کر کھڑا ھو جاتا ھے ،، اور وہ پھر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑتا ھے ،یوں اس کا گناہ اس کو دوڑاتا دوڑاتا جنت میں داخل کر دیتا ھے ،،
جبکہ نیک آدمی کو اس کا نفس اس کی نیکی کے سحر میں مبتلا کر دیتا ھے یہانتک کہ وہ جنت کو اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتا ھے ،، جب انسان نیکی کو جنت کی قیمت اور جنت کو اپنا حق سمجھنا شروع کرتا ھے تو پھر اللہ پر واجب ھو جاتا ھے کہ وہ اس کی نیکی کی حقیقت نہ صرف اس کے سامنے بلکہ محشر میں کھڑی ساری مخلوق کے سامنے کھول کر دکھا دے ،، یہی مقصد ھے اس حدیث کا کہ جس میں نبئ کریم ﷺ نے فرمایا کہ :
قیامت کے دن شھید کو لایا جائے گا اور اللہ پاک اس پر اپنی نعمتیں پیش کرے گا جن کا وہ اقرار کرے گا – پھر اللہ اس سے پوچھے گا کہ بدلے میں تم نے کیا عمل کیا ؟ وہ جواب دے کہ کہ میں تیری راہ میں لڑا یہانتک کہ شھید ھو گیا ،، اللہ پاک فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ھے تو اس لئے لڑا تھا کہ لوگ کہیں کہ بہت بہادر آدمی ھے ، اور لوگوں نے یہ کہہ دیا ھے تو نے اپنا اجر لوگوں کی واہ واہ کی صورت پا لیا ھے ،میرے ذمے اب تیرا کوئی اجر نہیں ھے ، پھر اسے مہ کے بل گھسیٹ کر جھنم میں ڈال دیا جائے گا ،، پھر صدقہ دینے والے کو لایا جائے گا اور اس سے بھی ویسا ھی سوال جواب ھو گا اور اسے کہا جائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ھے ، تو نے صدقہ اس لئے دیا تھا کہ لوگ تیری سخاوت کی تعریف کریں اور وہ تعریف کر دی گئ ھے اب میرے ذمے تیرا کوئی اجر نہیں اور اسے بھی گھسیٹ کر جھنم میں ڈال دیا جائے گا ، پھر قرآن کے قاری کو لایا جائے گا اور اس کے ساتھ بھی ویسا ھی مکالمہ ھو گا ،، پھر کہا جائے گا کہ تو نے جھوٹ بولا ، تو نے یہ علم لوگوں سے عزت و توقیر سمیٹنے کے لئے حاصل کیا تھا اور تو نے اس عزت وتوقیر کو دنیا میں وصول کر لیا ھے ، اب میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں ھے اور اس کو بھی گھسیٹ کر جھنم میں ڈال دیا جائے گا ،، اس کے بعد آپ ﷺ نے ابوھریرۃؓ کے گھٹنے پر ھاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میری امت کے یہ وہ تین آدمی ھیں جن سے جھنم بھڑکائی جائے گی ،،،( مسلم عن ابی ھریرۃؓ )
جب تک مومن اپنی عبادت کو اپنی عبودیت اور عبدیت کی نیاز سمجھ کر رب کے حضور پیش کرتا رھتا ھے اور محسوس کرتا ھے کہ وہ اللہ کا حق ادا نہیں کر پایا ھمیشہ احساسِ جرم میں مبتلا رھتا ھے تو اللہ پاک اس کی ٹوٹی پھوٹی عبادت کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا رھتا ھے ، اور جب وہ اپنی عبادت کے عشق میں مبتلا ھو کر جنت کو اس کی قیمت سمجھنا شروع کرتا ھے تو پھر اللہ پاک اس سے نعمتوں کی قیمت وصول کرتا ھے ،، اور ایک ادنی نعمت کو کہا جائے گا کہ تو اس بندے کے اعمال میں سے اپنا حق وصول کر لے اور وہ نعمت جھٹ سے اس کے سارے نیک اعمال ھڑپ کر جائے گی اور شکوہ کرے گی کہ اس کا حق ادا نہیں ھوا ،، اس پر اس آدمی پر اپنی عبادت کی حقیقت کھُل جائے گی اور وہ دائیں بائیں دیکھے گا تو اپنے آپ کو نعمتوں میں گِھرا پائے گا جو اس سے اپنے حق کا تقاضا کر رھی ھونگی ،،،،،، نیکی کا گھمنڈ وہ پہلا گناہ ھے جو اس کائنات میں سرزد ھوا اور ابلیس اپنی نیکی کے جال میں پھنس کر ھلاک ھوا جب کہ آدم علیہ السلام کی توبہ نے ان کو رب کا محبوب بنا دیا ،،