عائلی زندگی پر امیر المومنین عمر الفاروق کا سنہری حروف سے لکھا جانے والا تبصرہ !
ایک بدو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے امارت کے زمانے میں ان کے پاس اپنی بیوی کی بد خلقی اور زبان درازی کی شکایت کرنے آیا – وہ امیر المومنینؓ کے دروازے پہ پہنچا تو سنا کہ اندر سے امیر الومنینؓ کی زوجہ مسلسل بولے چلی جا رھی ھیں جبکہ امیرالمومنین بالکل خاموش ھیں اور پلٹ کر کوئی جواب نہیں دے رھے ،، وہ کہنے لگا اگر یہ حال عمرؓ کا ھے جس کی سخت طبیعت اور مردانگی سے دنیا دھشت زدہ رھتی ھے اور وہ امیر المومنین بھی ھیں ،، تو میں کس کھیت کی مولی ھوں ،،، یہ کہہ کر وہ پلٹا اور جانے لگا تو عمر فاروقؓ گھر سے باھر نکلے اور اس کو اپنے دروازے سے پلٹ کر جاتے دیکھا ، تو اسے آواز دی کہ بھائی کس حاجت سے آئے تھے ذرا بیان تو کر دو ؟ اس شخص نے کہ کہ اے امیر المومنین میں جس مصیبت کی شکایت کرنے آیا تھا اسی میں آپ کو بھی مبتلا دیکھا تو سوچا کہ اگر امیر المومنین خود اس مصیبت میں مبتلا ھیں تو میری مصیبت کا مداوہ کیونکر کریں گے ،، امیر المومنین میں اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے آیا تھا مگر آپ کے گھر کا احوال سن کر واپس جا رھا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،
امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اسے نصیحت کی ،فرمایا میرے بھائی اس کی یہ ساری باتیں میں اس کے ان احسانات کے بدلے برداشت کرتا ھوں جو وہ مجھ پر کرتی ھے ،، وہ میرا کھانا تیار کرتی ھے ، میری روٹی پکاتی ھے ،میرے کپڑے دھوتی ھے ، میری اولاد کو دودھ پلاتی ھے اور میرے دین کی حفاظت کرتی ھے اور مجھے حرام سے بچاتی ھے اور یہ سب اس پر واجب بھی نہیں ھے ، ، اس شخص نے کہا کہ امیر المومنین میری بیوی بھی یہ سب کام کرتی ھے ، آپ نے فرمایا تو پھر اس کو برداشت کرو بھائی ،، فانھا مدۃ یسیرہ ،، یہ تھوڑی سی مدت ھی کی تو بات ھے ،، پھر نہ ھم رھیں گے اور نہ وہ ،،،،،،،،،،