امام احمد رضا خان بریلوی فقہ حنفی کے بطل جلیل تھے ، فقہ میں نکتہ سنجی میں کمال رکھتے تھے اور بات کہ تہہ تک پہنچنے میں یدِ طولی حاصل تھا ، موجودہ یا مروجہ بریلویت جس نے ان کو بدنام کر کے رکھ دیا اور لوگوں نے بریلویت کو بدعات کا گہن لگا کر انہیں بدنام کر دیا ، آج جو کچھ بریلویت کے نام پر ھو رھا ھے یہ اصلاً باطنیت ھے اور اس کے خلاف ان کے سیکڑوں فتوے موجود ھیں ! شاعری میں عشقِ رسول میں ڈوب کر لکھتے تھے اور ان کے لکھے ھوئے سلام کا ثانی آج تک لکھا نہیں جا سکا ،، تعصب سے بالا تر ھو کر دیکھا جائے تو ان کے تیس جلدوں پر لکھے گئے فتاوی ایک انمول خزانہ ھیں ،،
13 برس اور دس مہینے کی عمر میں عالم کی سند حاصل کی ،،
ھند میں مشہورِ زمانہ طاعون پھیلا جس نے محلے اور گلیاں لاشوں سے بھر دیں ، دفنانے کے لئے لوگ میسر نہ تھے اور ھر گھر میں کہرام بپا تھا ،، اس زمانے میں احمد رضا خان کو شدید بخار کا سامنا کرنا پڑا ،، تمام تر علامات طاعون کی پائی جاتی تھیں ،، بخار کی وجہ سے غشی کے دورے پڑتے تھے ،مگر مولانا جب بھی ھوش میں آتے تو کہتے کہ مجھے طاعون نہیں ھے ، مجھے طاعون کبھی نہیں ھو سکتا اور یہ کہہ کر پھر بیہوش ھو جاتے ،، تمام لوگ مایوس ھو چکے تھے ، قبر کی تیاری کے لئے لوگ قبرستان بھیج دیئے گئے تھے اور دور کے عزیزوں کو پیغام بھی ارسال کر دیئے گئے تھے ،، کہ اچانک بخار ٹوٹ گیا اور مولانا ھوش میں آ گئے ،،،،،،،
بعد میں کسی نے سوال کیا کہ آپ جب بھی ھوش میں آتے تھے تو اتنے یقین سے کیوں فرماتے تھے کہ مجھے طاعون نہیں ھے ،مجھے طاعون نہیں ھو سکتا ؟ تو کہنے لگے کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ جو بندہ کسی کو کسی مصیبت میں دیکھ کر یہ دعا پڑھ لے کہ ” الحمد اللہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ( ولوا شاء فعل ) و فضلنی علی کثیرٍ من خلقہ ،، ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت میں رکھا جس میں آپ مبتلا ھیں اگر وہ چاھتا تو مجھے بھی لگا سکتا تھا مگر اس مجھے اپنی بہت ساری مخلوق پر فضیلت بخشی ،، تو اس کو وہ مصیبت کبھی نہیں آتی ،،، میں نے ایک طاعون زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ رکھی تھی لہذا یقینِ کامل تھا کہ اور کوئی بیماری ھو سکتی ھے مگر طاعون نہیں ھو سکتا کیونکہ میرے نبی ﷺ کا فرمان جھوٹا نہیں ھو سکتا یہ ھوتا ھے حقیقی ایمان اور یقین !
جس شخص کو پیشکش ھوئی تھی کہ اگر وہ فلاں نواب کی شان میں قصیدہ لکھ دے تو وہ ان کو سونے میں تول کر سونا ان کو دے دے گا ،، اس کو صاف جواب دے کر فرمایا تھا ” میں جب بھی لکھوں گا اپنے نبی کی شان میں ھی لکھونگا ، اس کے علاوہ میرا قلم کسی کے لئے بنا ھی نہیں ،، کروں مدحتِ اھل دل رضا ،، پڑے اس بلا میں میری بلا ،،، میں گدا ھوں اپنے حیبیب کا ، میرا دین پارہ ناں نہیں ،،،،، یہ نواب نان پارہ کہلاتا تھا ،، یعنی روٹی کا پھُلکا ،کیونکہ اس کے در سے فقیر روٹی کھاتے تھے ،، گویا آپ فرما رھے ھیں کہ مصطفی کی شان بیان کرنا تو میرے دین کا حصہ ھے ، نان پارہ میرے دین کا حصہ نہیں ھے ( میرا دین پارہء ناں نہیں )