دکھاں دی روٹی،سولاں دا سالن،آھــواں دا بالن بال نــی!
مائے نی میں کنوں آکھاں ،،،، درد وچھوڑے دا حال نی ؟ !
ساس اور بہو کے درمیان عموماً ابتدا بہت آئیڈیل ھوتی ھے،، بہو ھر وقت امی امی کرتی رھتی ھے،، وہ اپنے خوابوں کے اس گھر میں آ گئ ھے جس کا ذکر وہ اپنی امی سے چلتے پھرتے سنتی رھتی تھی،” اپنے گھر جا کے کر لینا ” وہ اس کو اپنا گھر سمجھ کر ھرنی کی طرح کلانچیں بھرتی پھرتی ھے،، شوھر دو ماہ چھٹی گزار کے چلا جائے تو وہ سوتی بھی ساس کے ساتھ ھے، کہ اسے ساس کے پسینے سے شوھر کی خوشبو آتی ھے ! مگر ھماری جمہوری حکومت کی طرح یہ فضا بھی زیادہ لمبی نہیں چلتی ،، بات کا بگاڑ عموماً شوھر کی بہنوں کی طرف سے ھوتا ھے، وہ ماں کے کان بھرنا شروع کرتی ھیں،، دلہن ان کی ھم عمر ھے اور ابھی بچی ھے، وہ ان کی سہیلی بننا چاھتی ھے مگر دولہا کی بہنیں اس کی ساس بننے کے چکر میں ھوتی ھیں، جان بوجھ کر اسے کہیں گی،وہ گلاس ذرا پکڑانا،، ایک دو دفعہ وہ پکڑا بھی دے گی مگر پھر اس کا ماتھا ٹھنکتا ھے کہ یہ تو ھر ذرا ذرا سی چیز مجھ سے منگوا کر اپنی اتھارٹی جتا رھی ھیں، اب وہ بھی کہہ دیتی ھے کہ پیار کی بات تو الگ تھی لیکن تم لوگ میری ساس یا شوھر بننے کے چکر میں ھو،اور میرا شوھر بھی ایک ھے اور ساس بھی ایک ھے،، یہ ھم عمر لڑکیوں کی چپکلش تھی،ماں کو بہو سمیت سب کو اپنی بیٹیاں سمجھ کر فیصلہ کرنا چاھیئے تھا ،،مگر ایسا ھو جائے تو ساس اور بہو کا جھگڑا ھی ختم نہ ھو جائے،، ساس پوری بات تو بیٹے کو بتاتی نہیں بس کہہ دیتی ھے تیری بہنوں کے ساتھ اڈے لگاتی ھے،ضد کرتی ھے،، شوھر بھی اماں کی بات کو وحی سمجھ کر بیوی کو ڈانٹنا شروع کر دیتا ھے ،یوں بہو ساس سے بھی بدظن ھو جاتی ھے،، اب وہ مطالبہ کرتی ھے کہ مجھے الگ گھر دیا جائے،ایتھے سب میرے ویری نے کنوں اپنا حال سناواں ؟ اب بات کوٹھے چڑھ جاتی ھے کہ جی ھمارا بیٹا الگ کرنا چاھتی ھے،، مینوں ماں پیو تو الگ کردی اے،، تو وہ اگر اپنے ماں باپ سے الگ ھوگئ ھے قیامت کوئی نئیں آئی تو ،،تو نیا گھر بسانے کے لئے اگر تمہیں ایک کمرہ الگ کرنا پڑے تو کیوں قیامت آ جائے گی،، اس کو الگ کمرہ دینا شرعی ذمہ داری ھے شوھر کی،جس کمرے کی پرائیویسی اس عورت کے ھاتھ میں ھو،جس کی کسی چیز کو کوئی دوسرا ھاتھ نہ لگائے،، جس کمرے کی سیٹنگ وہ اپنی تربیت کے مطابق کر سکے،، یہ پہلی سیڑھی ھے اب بھی بنگلہ دیش بننے سے بچ سکتا ھے،اس عورت کو کمرہ دے کر اس کے حقوق کو تسلیم کر لیا جائے،،مگر بات کو اتنا بگاڑا جاتا ھے کہ یا تو مرد کے چھٹی آنے سے پہلے طلاق آ جاتی ھے یا بیٹا والدین سے الگ ھو جاتا ھے اور بنگلہ دیش بن جاتا ھے ! مرد عموماً یہ سمجھتے ھیں کہ ان پر ماں باپ کا اتنا حق ھے کہ وہ ان کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا ،، یہ ھی غلط فہمی گھر اجاڑتی ھے،، بیٹا ایک جج ھے، جسے والدین اور بیوی سمیت سب کے ساتھ انصاف کرنا ھے،، اگر میں جج ھوں اور میرا والد یا والدہ کہتے ھیں کہ میں فلاں مجرم کی ضمانت لے لوں تو کیا میں ان کے کہنے سے مجرم چھوڑنا اور بے گناہ لٹکانا شروع کر دوں تو سیدھا جنت میں چلا جاؤں گا ؟؟ یا اگر گاڑی میں میرے ساتھ میری والدہ یا والد بیٹھے ھیں اور ایک جگہ نو انٹری ھے،،میرا والد یا والدہ کہتے ھیں کہ یہاں سے داخل ھو جاؤ تو کیا میں ان کے کہنے پر ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ھوئے نو انٹری سے داخل ھو سکتا ھوں ؟ اور میرا عمل فرمانبرداری کے زمرے میں آئے گا،، اور کیا والدین کو حق حاصل تھا کہ وہ اس معاملے میں مجھے حکم دیں ؟ کیا میں ان کو سمجھاوں گا نہیں کہ اماں جی ٹریفک والوں کے قانون کے مطابق میں یہاں سے داخل نہیں ھو سکتا ؟؟؟ پھر اللہ کے قوانین کی وقعت ٹریفک قوانین جتنی بھی نہیں کہ میں اپنے والدین کو سمجھاؤں کہ اللہ پاک کے قانون کے مطابق میں وہ نہیں کر سکتا جو آپ کہتے ھیں ،، وہ میری بیوی ھے اور جو وہ مطالبہ کر رھی ھے شریعت کہتی ھے کہ یہ اس کا حق ھے،میں آپ کے کہنے پر اس کی حق تلفی نہیں کر سکتا ! قرانِ حکیم نے میاں بیوی کے حقوق و فرائض پر سورتوں کی سورتیں نازل کی ھیں،، اور رکوعوں کے رکوع بھر دیئے ھیں،، خود ضابطے بنائے ھیں کہیں بھی ماں باپ کا کوئی کردار نہیں رکھا،،یہ ایک سوشل کنٹریکٹ ھے جس میں دونوں کے حقوق و فرائض طے کر دیئے گئے ھیں اور لا طاعۃ لمخلوقٍ فی معصیۃِ الخالق ،، خالق کے قانون توڑنے میں مخلوق میں سے کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جائے گی ،، میرے والدین مجھے کہیں ،،میں ساری رات ایک ٹانگ پر کھڑا رھوں گا،،مگر میں ان کے کہنے سے کسی کی زندگی برباد نہیں کروں گا ،، جو میرے گھر میں ھے وہ بھی کسی کی ماں ھے اور وہ معصوم نگاھیں اور سادہ ذھن مجھ سے توقع رکھتے ھیں کہ میں ان کی ماں کا دفاع کروں گا کیونکہ میں ان کا ھیرو ھوں،، اسوہ ھوں، دنیا کا سب سے طاقتور انسان ھوں، بہت رحم دل ھوں ! میں ان کی اِن توقعات پر اس لیئے پانی نہیں پھیر سکتا کہ میری والدہ تو اپنی بچیوں کی سائڈ لے کر میرا گھر اجاڑنا چاھتی ھے مگر میں اپنے بچوں کی سائڈ لے کر یہ آشیانہ تباہ ھونے سے نہ بچا سکوں ! لوگ کہتے ھیں ابوبکر صدیقؓ کے کہنے سے ان کے بیٹے نے طلاق دے دی تھی،، کسی عالم نے کیا پیارا جواب دیا تھا کہ اگر تیرا باپ بھی ابوبکرؓ ھے تو بخدا آج طلاق دے دے،،مگر تیرا باپ رضی اللہ عنہ نہیں ھے، عشرہ مبشرہ میں سے نہیں ھے،،وہ فریبی اور جھوٹا بھی ھو سکتا ھے،، تیری والدہ بھی جھوٹی ھو سکتی ھے،، یہ کیس ٹو کیس معاملہ ھے،، اسماعیل علیہ السلام نے ابراھیم علیہ السلام کے کنے سے طلاق دی تھی ،، فرمایا تیرا باپ اگر ابو الانبیاء خلیل اللہ ھے تو پھر ضرور اس کی اطاعت کر،، ورنہ اپنے باپ کا تقابل ان سے کر کے گھر برباد نہ کر ،، ایک طرف نماز پڑھتے نہیں،، رات گندی سائٹس دیکھتے گزر جاتی ھے،، بس بی
وی کے طلاق نامے پر بیٹھ کر پلصراط عبور کرنا ھے ! اس بڑی مصیبت اور قرآن و حدیث کی مردانہ توجیہہ کرتے ھوئے، والدین سے متعلق قرآن کی ساری آیات اور والدین کے حقوق سے متعلق ساری احادیث صرف مردوں کی ماں کے بارے میں نازل ھوئی ھیں،، عورت کے بچے کو مشقت سے اٹھانے اور مشقت سے جننے اور تیس مہنوں میں ماں کا پیچھا چھوڑنے کی ساری آیتیں مردوں کی ماں کے بارے میں نازل ھوئی ھیں،، عورت کی ماں کو بچی پیدا کرتے وقت درد تھوڑی ھوتا ھے وہ تو نو ماہ کمر کے پیچھے باندھ کر رکھتی ھے اپنی بچی کو ،، اور صرف مرد کی ماں بچے کو 32 دھاریں پلاتی ھے،،عورت کی ماں تو گنا چساتی ھے اپنی بچی کو ،، الغرض عورت کے والدین کے کوئی حقوق نہیں،، مرد جب چاھے عورت کو اپنے والدین سے ملنے سے روک دے،، بھائیوں سے ملنے سے روک دے اور طلاق ڈال دے کہ اگر ماں کے گھر گئ تو طلاق ،، میں نے کئی ایسے ظالمانہ کیس دیکھے ھیں کہ عورت کی بہن مر گئ ھے اور بہن دیکھنے نہیں جا سکتی،، گلی میں منہ دکھایا گیا،، عورت کا باپ مر گیا اور طلاق کی قسم کی وجہ سے اس کی چارپائی پڑوسیوں کے گھر رکھی گئ تا کہ بیٹی رو سکے ،، اس بیٹی کا رونا بھی کیسا رونا ھو گا کہ پورا محلہ اس کے ساتھ رویا ھے،،یہ ھے ھمارے جوانمردوں کی مردانگی ! صلہ رحمی اللہ کا حکم ھے اور نبی پاکﷺ کا بھی حکم ھے ،، کسی شوھر کو یہ حق حاصل نہیں ھے کہ وہ اللہ کے حکم کو منسوخ کر کے اپنا حکم جاری کرے ،، نہ ھی عورت پر یہ واجب ھے کہ وہ اپنے شوھر کی اطاعت میں اپنے والدین کو چھوڑ دے ،، عورت اگر جاب کرتی ھے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے والدین کی مالی مدد کرے اور کم از کم ایک بچی یا بچہ اپنے خرچے سے پڑھا کر اپنی تعلیم کے اخراجات کا مداوا کرے ،، اپنے غریب بہن بھائیوں کی مالی مدد کرے ،، اگر وہ جاب نہیں کرتی تو شوھر فرض ھے کہ وہ جس طرح اپنے عزیز و اقارب کا خیال رکھتا ھے، اسی کے مدِ نظر بیوی کو بھی کچھ نہ کچھ ماھانہ دیتا رھے تا کہ وہ اس سے بچت کر کے صدقہ خیرات بھی کیا کرے اور اپنے والدین اور اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کا سلوک بھی کیا کرے،، اولاد کے سامنے ان کے ننہیال کو گالیاں نہ دیا کرے نہ انکی غربت کا مذاق اڑایا کرے،، اولاد کی نظروں سے گِر کر انسان کہیں کا نہیں رھتا،، اس کی مثال اس درخت کی سی ھو جاتی ھے،جس کے پھل کو پک کر کیڑے پڑ جاتے ھیں،، !! بس اتنا سوچ لیں کہ کیا آپ یہ پسند کرتے ھیں کہ کل آپ کا داماد اپنے والدین کے کہنے پر آپ کی بیٹی کے ساتھ وہ سب کچھ کرے جو آج آپ اپنے والدین کے کہنے پر اپنی بیوی کے ساتھ کر رھے ھیں،،کیا یہ کسی کی بیٹی نہیں ؟