ھائے بے جی !
وہ اس کی اکلوتی اولاد تھا ، چپ چپ رھنے والا اپنی الگ دنیا کا باسی ، لوگ اسے ابنارمل سمجھتے تھے مگر ماں جانتی تھی کہ وہ ابنارمل نہیں ھے – بس سادا ھے اور سادگی اج کل abnormality ھی سمجھی جاتی ھے ،، ماں اس سے ٹوٹ کر پیار کرتی تھی ، اگرچہ شوھر اس کو سمجھاتا رھتا تھا کہ یہ پرائی امانت ھے تو اس میں اتنی زیادہ انوالو مت ھو جا کہ کل الگ ھوتے ھوئے جان نکل جائے ،،،،،،،،،،،، مگر کسی نے کسی ماں سے پوچھا تھا کہ آپ کو کونسا بچہ زیادہ پیارا لگتا ھے تو اس نے جواب دیا تھا ،، بیمار بچہ جب تک کہ شفایاب نہ ھو جائے ، غریب بچہ جب تک کہ امیر نہ ھو جائے ،، جب اس کی شادی کی بات چیت چل رھی تھی تب بھی ماں ھی صبح اس کے منہ میں لقمے ڈالتی تھی اور سمجھتی تھی کہ اس کے سوا کوئی اس کے بیٹے کو ھینڈل نہیں کر سکتا ،، اس قدر ممی ڈیڈی بچے کو کوئی رشتہ دینے کو تیار نہیں تھا ،،آخر اس کی بہن نے اپنی بیٹی دینے کا وعدہ کر لیا ،جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ ھو گیا ،، شادی والے دن وہ سہما سہما سا تھا ،، ماں کا ھاتھ پکڑ کر اپنے سینے سے لگاتا ، تو کبھی اس کو چومتا تو کبھی اس کو سر پہ رکھ لیتا ، وہ بھی اسے دلاسے دیتی رھی اور اس کے دوستوں سے کہتی کہ اس کا خیال رکھنا ، یہ بہت نروس ھے ، مگر کوئی جیسے اس کے اندر سرگوشیاں کر رھا تھا کہ ،، ؎
آج کی بات پھر نہیں ھو گی
یہ ملاقات پھر نہیں ھو گی !
ایسے بادل تو پھر بھی آئیں گے !
ایسی برسات پھر نہیں ھو گی !
دلہن ڈولی میں بٹھائی جانے لگی تو وہ اپنی ماں سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار رھی تھی تو کبھی ابو کے قدموں میں لوٹیں لگا رھی تھی ، ادھر دولہا حواس باختہ چاروں طرف دیکھے جا رھا تھا کہ کہیں کوئی لڑکی کے رونے کا سبب اس کو نہ سمجھ لے ، اس نے تو سنا تھا کہ شادی خوشی کا موقع ھوتی ھے مگر اس قدر خلوص سے پھوٹ پھوٹ کر رونا تو اس نے کسی میت پہ بھی نہیں دیکھا تھا ، آخر اس نے بھی ہچکیاں لے لے کر رونا شروع کر دیا ،، دوست جتنا ہاتھ دباتے اس کی آواز مزید بلند ھو جاتی آخر لڑکی کے باپ نے ھی گلے لگا کر اسے چپ کرایا ،، ڈولی گھر میں اتری تو وہ ڈرا ڈرا سا کن اکھیوں سے ڈولی کی طرف دیکھ رھا تھا کہ کہیں دلہن اترتے ھی اس کے پاؤں پڑ کے رونا شروع نہ ھو جائے ،، احتیاطاً اس نے جا کر اپنی امی کا ھاتھ پکڑ لیا ،،، ماں نے سہمے سہمے اور ہلکا ہلکا کانپتے اپنے بچے کو دیکھا تو اسے دلاسہ دیا ،، وہ سوچ رھی تھی کہ نئ لڑکی اس بدھو لڑکے کو کیسے ٹیون کرے گی ،،،،،،،،،،،،،،،،،
ساون کا مہینہ تھا اور سب کی چارپائیاں صحن میں تھیں جبکہ دولہا دلہن کو چھت پہ چارپائیاں ڈال دی گئیں تھیں ،، سارے دن کی مشقت کے مارے مہمان پڑتے ھی سو گئے تھے مگر ماں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ،،،، وہ کروٹیں بدل رھی تھی اور کسی انہونی کے ھونے کے انتظار میں تھی،،، غالباً تیسرا پہر تھا جب نعرہ مستانہ گونجا ” ھائے او بے جی ” اس فلک شگاف نعرے کے ساتھ پاس ورڈ تبدیل ھو گیا تھا ،، ماں نے دل پہ ہاتھ رکھ لیا ،،” بے جی صدقے کریں کھنڈی چھری نال کہوئی شوڑیا ایس ” ماں صدقے کند چھری سے ذبح کر دیا ھے اس نے ”
صبح وہ ماں سے آنکھ نہیں ملا رھا تھا ، ماں نے حسبِ معمول اس کے لئے پراٹھا بنایا اور اسے ھاتھ سے کھلانے کی کوشش کی مگر اس نے طبیعت خراب ھونے کا کہہ کر کچھ کھانے سے انکار کر دیا ،، ماں نے دلہن کو چائے کے ساتھ رس رکھ کر دے دیئے اور خود مہمانوں کو نمٹانے میں لگ گئ ، اچانک اس نے جو گھوم کر دیکھا تو وہ ساد مرادا بیٹا دلہن کے ھاتھ سے رس کھا رھا تھا اور ھلکے ھلکے مسکرا کر باتیں کر رھا تھا ،، وہ سکتے کی کیفیت میں یہ سب دیکھے جا رھی تھی کہ پیچھے سے شوھر کی آواز آئی ،،،،،،،، مجھے اپنا پہلے دن کا ناشتہ یاد آ گیا ھے ،، یہ اس دنیا کی رِیت ھے ، اس میں تعجب کی کیا بات ھے ؟