کاشانہءِ نبوت کے بارے میں میرا حتمی اور دائمی موقف !
نبئ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھرانے یعنی اھل بیت کے معاملے میں ،،
میں نے قرآن حکیم کے اس اصول کو داڑھوں سے پکڑ رکھا ھے اور اللہ پاک سے اسی پر موت مانگتا ھوں اور اسی پر بعثت مانگتا ھوں اور اسی کے ساتھ نبی ﷺ کا سامنا کرنا چاھتا ھوں کہ جس بات کو میں اپنی ذات کے لئے پسند نہیں کرتا اسے میں قیامت تک نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا ،، جس پر مین عمل کرنا اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتا میں کبھی اس فعل سے نبی ﷺ کی شان کو داغدار نہیں کر سکتا ،، اور جسے کرتے ھوئے میں شرماؤں ،،، میں ڈھیٹ بن کر کبھی وہ حرکت نبی ﷺ کی ذاتِ اقدس سے منسوب نہیں کر سکتا ،، یہ میرا ایمان ھے مجھے کوئی پھانسی پر لٹکا کر بھی اس اصول کے خلاف نہیں لے جا سکتا ،،
لولا إذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خيرا وقالوا هذا إفك مبين( النور 12)
کیوں نہ جب سنا تم نے اس خبر کو تو گمان کیا ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا ،، اور کہہ دیا کہ یہ صریح طوفان ھے ،،،،،،
یعنی مومن اپنے آپ کو صفوان بن معطل کی جگہ رکھ کر سوچتے کہ کیا نبی ﷺ کی زوجہ جو ان کی ماں بھی لگتی ھے اگر اتفاق سے ان کو اکیلی مل جائے تو کیا وہ ،،، وہ سب کچھ کر گزریں گے جس کا الزام صفوان کو دے رھے ھیں ؟ اگر نہیں تو پھر ایک بدری صحابی کے بارے میں تم نے یہ گمان کیسے کر لیا ؟ تم نے صفوان کو نہیں اپنے آپ کو الزام دیا ھے ،، اور مومن عورتیں سوچیں کہ اگر وہ نبی ﷺ کی زوجہ ھوتی اور امت کی ماں ھوتی تو کیا وہ اس قبیح فعل کا ارتکاب کرتی ؟ اگر نہیں تو پھر ابوبکرؓ کی بیٹی اور نبی ﷺ کی بیوی عائشہؓ کے بارے میں تم نے یہ گمان کیونکر کر لیا کہ وہ ایمان و کردار میں تم سے کمتر ھے ؟ اس معاملے میں زبان کھولنے والوں اور کھولنے والیوں نے اپنے آپ کو ایکسپوز کیا ھے ،، لہذا وہ توبہ کریں ،،، انہیں تو سنتے ھی کہنا چاھیئے تھا کہ ھمیں زیبا نہیں کہ ھم اس معاملے پر بات بھی کریں ، اے اللہ تیری ذات پاک ھے ، یہ تو عظیم بھتان ھے !
ولولا إذ سمعتموه قلتم ما يكون لنا أن نتكلم بهذا سبحانك هذا بهتان عظيم ( 16 )
يعظكم الله أن تعودوا لمثله أبدا إن كنتم مؤمنين ( 17 )
اللہ تمہیں نصیحت کرتا ھے کہ خبردار آئندہ ایسی حرکت مت دھرانا اگر تم مومن ھو ،،
اور میں نے الحمد للہ یہ نصیحت دل و جان سے مان لی ھے ،، اور ایمان کی حالت میں نبی پاک ﷺ کا سامنا کرنا چاھتا ھوں ،،
اس نصیحت پر سب سے پہلے عمل حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی زوجہ نے فرمایا تھا اور اللہ پاک نے اپنے قول میں ان کے اس رویئے کی طرف اشارہ کر کے مومنوں کو ان جیسا رد عمل دینے کی نصیحت فرمائی ھے اور یہ ایک اعزاز ھے جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی کا کہ اللہ پاک نے ان دونوں میاں بیوی کے رد عمل کو قیامت تک اسوہ اور پیمانہ بنا کر قرآن میں ثبت کر دیا ،،
روي أن أبا أيوب الأنصاري لما بلغه خبر الإفك قال لزوجه : ألا ترين ما يقال ؟ فقالت له : لو كنت بدل صفوان أكنت تظن بحرمة رسول الله سوءا ؟ قال : لا . قالت : ولو كنت أنا بدل عائشة ما خنت رسول الله فعائشة خير مني وصفوان خير منك . قال : نعم .
ابو ایوب انصاریؓ نے اپنی بیوی سے واقعہ افک کے بارے میں فرمایا تو نے سنا ھے جو کچھ کہا جا رھا ھے ؟ انہوں نے پلٹ کر جواب دیا اگر آپ صفوانؓ کی جگہ ھوتے تو کیا نبی ﷺ کے حرم کے بارے میں یہی سوچ سوچتے جو صفوان کی طرف منسوب کی جا رھی ھے ؟ تو ابو ایوبؓ نے فرمایا کہ ھر گز نہیں ،، پھر ان کی زوجہ نے فرمایا ،اللہ کی قسم میں اگر عائشہ کی جگہ ھوتی تو رسول اللہ سے خیانت کا ارتکاب کبھی نہ کرتی ،،پھر عائشہؓ جو مجھ سے بہتر ھیں اور صفوان جو آپ سے بہتر ھیں اس خیانت کا ارتکاب کیسے کر سکتے ھیں ؟