صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین کو قرآن کی نظر سے دیکھنے کی اشد ضرورت ھے

علمائے اکرام چاھے ھمیں جتنا چاھئیں لتاڑ لیں اور قرآن کی حاکمیت کا انکار کریں ،مگر ایک نہ ایک دن انہیں اس پہاڑ کے نیچے آنا ھی پڑے گا ، برھمنوں کی طرح صدیوں عربی لٹریچر کو رانوں کے نیچے دبا کر بیٹھنے والوں کی ران کے نیچے سے یہ سانپ نکل کر باھر آ گیا ھے ،،
ایک بندہ ایک خبر دیتا ھے کہ رحمان ملک نے یا نبیل گبول نے یہ بات کہی ھے ،، مگر یہ بات سچ ھے یا جھوٹ اس کا فیصلہ میں نہیں کر سکتا ، البتہ راوی میں نے لکھ دیئے ھیں ، راوی جانیں اور 20 کروڑ عوام جانیں میرا کام بارودی سرنگ لگانا تھا جو میں نے لگا دی ھے ،، کاش کہ خبر دینے والا اس خبر کی خود ھی تصدیق کر کے پھر اس کو نشر کرتا ،، 20 کروڑ میں تو 20 کروڑ رائیں بن جائیں گی ،، انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ان کا لکھا کل قرآن بن جائے گا ؟ ان کے اسلاف بن جانے کے بعد کتا نمک بن جائے گا اور کھانا حلال ھو جائے گا ؟ ھم تو اسی صدی کے مولانا الیاس صاحب کے چھ نمبروں میں ساتواں نمبر نہیں ڈال سکتے پھر بھلا اتنے پرانے بزرگوں کے لکھے میں تصحیح کیسے کر سکتے ھیں ؟
حقیقت یہ ھے کہ قرآن کے محمد رسول اللہ ﷺ اور ھیں اور ان روایتوں کے محمد ﷺ کچھ اور ھیں ،، قرآن کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کچھ اور ھیں اور ان روایتوں کے صحابہ ایمان لیوا ھیں ،،
تعجب کی بات یہ ھے کہ ان کہانیوں کے راوی بھی وھی شیوخ ھیں جن کی جرح و تعدیل کی کتابوں کی بنیاد پر ھم اپنی صحاح ستہ کے راویوں کی صحت ،ثقاہت اور ضعف کا فیصلہ کرتے ھیں ، گویا ؎
چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی ؟
کتاب کا نام اس میں لکھے گئے واقعات کی روشنی میں دیکھیں تو طنز لگتا ھے !
نیکوں کے سرخیل لوگوں کے حالاتِ زندگی !! سیر اعلام النبلاء !
یہ کتاب علامہ شمس الدین الذھبی 748ھ نے لکھی ھے ،،
اصول یہ ھونا چاھئے کہ جو خبر ان صحابہؓ کے قرآن میں بیان کردہ اوصاف کے مطابق ھو گی اس کو ھم قبول کریں گے اور جو ان کے شایانِ شان نہ ھو اسے ھم ان سے حسنِ ظن کی بنیاد پر رد کر دیں گے ،،،،،،،،، مگر اس سے پہلے ھمیں ایک اور امتحان سے گزرنا ھو گا کہ یہی اصول اپنے نبی ﷺ کے لئے بھی بنانا پڑے گا کہ ھم صرف اسی روایت کو قبول کریں گے جو ھمارے نبی ﷺ کے شایانِ شان ھو گی اور قرآن کے بیان کردہ اوصاف کے مطابق ھو گی ،، جو روایت نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ھو ، یہاں تقابل اسلاف سے حسنِ ظن اور محمد مصطفی ﷺ سے حسنِ ظن کے درمیان ھے ،، کچھ کا اسلاف سے حسنِ ظن ، نبی ﷺ سے حسنِ ظن پر غالب ھے ، اور کچھ کا نبی ﷺ سے حسنِ ظن اسلاف سے حسنِ ظن پر غالب ھے ،۔،،
لکم دینکم و لی دین ،،
صرف دو واقعات لکھوں گا ،، اور دیکھئے گا کہ لوگ کس طرح ببلیاں مارتے ھیں ،مگر یہی لوگ نبیﷺ کے بارے میں اس سے بھی برُی خبروں پر سر دھنتے ھیں ،،

x (x)