اللہ پاک یہود کو ایکسپوز کرتا چلا جا رھا تھا ، بات سورہ البقرہ سے شروع ھوئی تھی ، پہلے پارے کا ربع چھوڑ کر باقی دوسرے پارے کے ربع تک یہود ھی زیرِ بحث چل رھے ھیں ،، آل عمران میں عیسائی اور پھر مائدہ میں یہود و نصاری دونوں ،،
ان کے وفود مختلف تجاویز لے کر آتے بات چیت چلتی مگر بات درمیان میں رہ جاتی ، یہود اس پر مصر تھے کہ ھم آپ کو رسول اللہ ماننے کے لئے تیار ھیں مگر من بنی اسماعیل الی بنی اسماعیل ،، بنی اسماعیل میں سے بنی اسماعیل کے لئے ،، آپ ھم سے اپنے اوپر ایمان کا تقاضہ نہ کریں جس طرح موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سوا کسی کو دعوت کا مخاطب نہیں بنایا ،، یہی معاملہ عیسائیوں کا تھا وہ بھی چاھتے تھے کہ انہیں بھی مسلم تسلیم کر لیا جائے کیونکہ وہ بھی اللہ کے ایک رسول کو ماننے والے ھیں ،، ان حالات مین اللہ پاک نے اپنے رسول ﷺ کو مخاطب کر کے سورہ بقرہ میں تو فرمایا کہ ان کے سوالوں کو کچھ زیادہ امید بھرے دل سے نہ لیا کیجئے کہ اگر اس سوال کا جواب مل گیا تو وہ مسلمان ھو جائیں گے ، ،، ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم ،، ھر گز راضی نہ ھونگے آپ سے یہود اور نہ نصاری یہانتک کہ آپ ان کی ملت کی پیروی نہ کر لیں ،، اسی موضوع کو سورہ المائدہ میں یوں سمیٹا کہ اے ایمان والو یہود و نصاری کو اپنا ولی مت سمجھو یہ ایک دوسرے کے ولی یعنی پشت پناہ ھیں ،، یہ صرف اس وقت کے حالات پر ایک تبصرہ تھا ،مگر ھمارے ترجمانوں نے اسے یہ ترجمہ کر کے کہ اے ایمان والو یہود و نصاری کو اپنا دوست مت سمجھو ،،
جبکہ خود آپ نے انہی حضرات سے منبر پر سے کئ بار سنا ھو گا کہ جب نبئ کریمﷺ کا وصال ھوا تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس من ڈیڑھ من جو کے عوض گروی رکھی ھوئی تھی ،، حالانکہ اس وقت مسلمان کافی اچھی مالی پوزیشن میں تھے ،، پھر یہودی کے یہاں گروی کیوں ؟ عبدالرحمان بن عوفؓ ، عثمان غنیؓ ،ابوبکر صدیقؓ موجود نہیں تھے ،، خیر پؤائنٹ یہی ھے کہ خود تو اپنے دوستوں کو چھوڑ کر یہود سے Mortgage کا کاروبار ھو رھا ھے ،، عیسائیوں اور یہود کے یہاں سے پنیر آتا تو آپ برغبت کھاتے تھے ،، اگر اللہ نے ان سے لین دین کے تعلقات منع کیئے ھوتے تو سب سے پہلے اللہ کے رسولﷺ ان کا بائیکاٹ کرتے ،،،،،