دلائل تو بعد میں ،،،،، پہلے یہ غزل سن لیں ،،
جو لوگ غیر مسلم کو سلام نہیں دے سکتے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
وہ ان کو اسلام کس منہ سے دیتے ھیں جو سراپا سلام ھے ؟
تنگ دل ، تنگ نظر ،کنوئیں کے مینڈک ، ماضی کے خوابوں میں اٹکے لوگ ، جنہیں انسانیت کی ھوا نہین لگی ،،،،،،،،، سلام ایک دعا ھے ،اور دعا تقدیر بدل دیتی ھے شاید تیری سلامتی کی دعا اس کو دونوں جہان کی سلامتی عطا کر دے ،، یارو ان مولویوں کو باندھ کر غیر مسلموں کے ساتھ بٹھاؤ ، انہین پتہ چلے وہ بھی انسان ھیں اور احساسات رکھتے ھیں ،محبت اور نفرت کرتے بھی ھیں اور محسوس بھی کرتے ھیں ،،،،،،، یہ اپنے جوتے اٹھانے والوں میں گھرے رھنے والے باھر کی دنیا سے بےخبر لوگ ھیں ،، قوموں کی برادری میں یہ تحت الثری میں مقام رکھتے ھیں ،،مگر خناس اس قدر ھے کہ گویا آج بھی تین براعظموں کے مالک ھیں ،، کسی کے سلام کا جواب دینے کے روادار بھی نہیں ،، یہ اس امت کی امامت کریں گے ؟ جنہیں یہ تک خبر نہیں کہ ان کی اپنی بوری میں سوراخ ھو چکا ھے اور آٹا دھڑا دھڑ باھر گر رھا ھے ،، ان کی تنگ نظری نے جوان طبقے کو دین سے متنفر کر کے رکھ دیا ھے ،،
ھمارے فتوے خلیفہ منصور عباسی کے زمانے کے ھیں ،،، جبکہ ھم مکی دور میں پہنچ چکے ھیں ،، سب سے بڑا سچ مولانا طارق جمیل نے بولا ھے ،، اب جنگی دور نہیں مکی دور ھے اور ھمیں نبی کریم ﷺ کی طرح گاالیاں کھا کر اور مظالم برداشت کر کے دعوت پہنچانی ھے ، جنگ نہیں کرنی ،،، جس اللہ نے آپ کی زکوۃ میں غیر مسلم کا حصہ رکھا ھے تا کہ اس کا دل نرم ھو کر اسلام کی طرف مائل ھو ، وہ اللہ تالیف قلب کے لئے سلام سے کیسے منع کر سکتا ھے ،، مدینے میں یہود و نصاری سے پالا پڑنے کے بعد اور روز آتے جاتے ان کے منہ لگنے اور منہ پھیر لینے کے بعد ھی یہ حکم دیا گیا تھا کہ ” وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها إن الله كان على كل شيء حسيبا [٨٦] [النساء] جب کوئی تمہیں تحیہ پیش کرے ، Greeting دے تو تم اس سے بڑھ کر اچھے الفاظ سے اس کا جواب دو ورنہ ویسا تو ضرور پلٹا کر دے دو ، بے شک اللہ ھر چیز کا حساب لینے والا ھے