وہ حکیم صاحب کا چھَوٹُو تھا اور ” نِکا حکیم ” کہلاتا تھا جس طرح سب انسپکٹر نکا تھانیدار ھوتا ھے ،، حکیم صاحب جس ڈبے کا نمبر بولتے وہ جھٹ سے اس ڈبے میں سے دوا نکال کر پُڑی بنا دیتا ،،،،، خلود تو صرف ذاتِ کریم جل جلالہ کو حاصل ھے ،باقی سب فانی ھے ،، حکیم صاحب کو بھی آخر اجل نے آ لیا ،،،،،، حکیم صاحب فوت ھو گئے مگر اپنے پیچھے دوائیوں یعنی ” پھکیوں ” سے بھرے ڈھیر سارے ڈبے چھوڑ گئے ،،،
کنوئیں اور چھپڑ کا کھیل !
چھوٹے حکیم صاحب نے جب چار دن بعد دکان کھولی تو ھر آنے والے مریض کے گلے لگ کے خوب روتا اور اسے بھی رلاتا ،،، یہ غالباً ویسا ھی رونا تھا جیسے سیالکوٹ سے چلنے والے ویگن کا ایک مسافر تھوڑی تھوڑی دیر بعد سواریوں کو کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کی تلقین کرتا تھا ، اوئے کلمہ پڑھو اوئے اس زندگی دا کوئی پتہ نئیں ،، اخر مسافر ویگن سے اتر گیا اور جاتے جاتے بم اپنی سیٹ کے نیچے رکھ گیا جو اس کے اترنے کے تھوڑی دیر بعد ھی پھٹ گیا تھا ،، نکا حکیم غالباً مریض کے مرنے کے خدشے کی وجہ سے احتیاطاً پہلے ھی رو لیتا تھا ،،،،
نکا حکیم بالکل نہیں جانتا تھا کہ کس ڈبے کی دوا کس مرض کے لئے ھے ، وہ ایک ڈبہ کھولتا اور اسی میں سے ھر مرض کی پڑیا بنا کر دے دیتا ، جب تک وہ ڈبہ ختم نہ ھوتا وہ نئے ڈبے کو ھاتھ بھی نہیں لگاتا تھا ،، مگر یہ احتیاط ضرور کرتا تھا کہ جس مریض کو دوا دیتا ایک پُڑی خود ضرور کھا لیتا تھا تا کہ دوا کے اثرات سے آگاہ رھے ،،،،
اللہ کا کرنا ایسا ھو کہ دو جوان اپنی اماں جی کو لائے جن کو فالج کا اٹیک ھوا تھا ،، حکیم جی نے اسی دن نئے ڈبے کا مہورت کیا تھا لہذا جو دوا اماں جی کو دی ، اس کی ایک پُڑیا خود بھی کھا لی- اماں جی کو دوا کیا کھلائی گئ گویا پیٹرول پلا دیا گیا وہ ساری رات چلاتی رھی ، اوئے میں سڑ گئ ، مجھے آگ کھا گئ ،، بیٹوں نے تھوڑی دیر تو پانی کھینچ کھینچ کر اماں پر ڈالا مگر اماں کی چیخ و پکار نہ رکی تو انہوں نے اماں جی کو ڈول میں بٹھا کر ڈول گھر کے کنوئیں میں ھی لٹکا دیا ،،
صبح صبح وہ حکیم کی دکان پہ پہنچے تو دکان بند تھی ،، بڑے پریشان ھوئے ایک بھینس والے سے پوچھا کہ بھائی یہ اپنے حکیم صاحب نہین دیکھے ، آج دکان بند ھے ؟؟ اس نے کہا کہ کل شام کو جب میں بھینسیں پانی پلا کر واپس آ رھا تھا تو حکیم صاحب چھپڑ کی طرف جا رھے تھے ،، جوان بھی چھپڑ کی طرف چل دیئے ،، دیکھا تو حکیم صاحب سر پانی سے باھر نکالے چھپر میں اسی طرح بیٹھے تھے جیسے مرغی انڈوں پہ غمگین بیٹھی ھوتی ھے ،، جوانوں نے آواز دی حکیم صاحب ساڈی اماں جی دی دوا نے ری ایکشن کر دیا ھے ،، آپ دوا تبدیل کر دیں ، حکیم صاحب نے جواب دیا کہ کل آنا آج گنجائش نہیں ھے ،، انہوں نے کہا کہ جناب باھر نکلو ھماری اماں بڑی اوکھی ھے ،، حکیم نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا ،، میں تمہیں سَوکھا نظر آتا ھوں ؟ میں نے بھی ساری رات چھپڑ میں گزاری ھے ،،
گزارش اتنی سی ھے کہ میرے پاس میری لکھی ھوئی تحریروں کے ڈھیر سارے فولڈرز پڑے ھوئے ھیں ، ھر ھفتے ایک فولڈر آنکھیں بند کر کے کلک کرتا ھوں اور اس میں سے دوا دینا شروع کرتا ھوں ، کچھ کو آرام آتا ھے تو کچھ کو ری ایکشن ھوتا ھے ، مگر انسانی فطرت ھے کہ ھر نئ بات پر اس کا رد عمل نہایت شدید ھوتا ھے ، پھر صرف شدید ھوتا ھے ،، اور پھر دھیما اور پھر نہایت دھیما ،،،،،،،،،، بے نظیر بھٹو جب پہلی بار وزیرِ اعظم بنی تھی تو ھم نے علماء کو آٹھ آٹھ آنسو روتے دیکھا تھا ، نماز کی قرأت کے دوران رونے سے ان کی گھگھی بندھ جاتی تھی اور وہ اپنی مردانگی پہ شرمندہ تھے ،، اگلی بار جب آئی تو قطعی کوئی رد عمل نہیں ھوا ،، اور تیسری بار تو بالکل ذھنی طور پہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ” آوے ھی آوے ” بچپن سے ایک ھی نقطہ نظر کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ھو ، اس کے سوا کچھ سنا ھی نہ ھو اور جو سنا تھا وھی سناتے گزرا ھو ،، تو نئ بات نیا دین لگتی ھے ،، اور اس کو قبول کرنا گویا اپنا دین چھوڑنے کے مترادف سمجھتے ھیں ،، جبکہ ھمارے دین میں جتنے صحابہ ھیں اُتنی آراء ھیں ،جتنے مشاھیر ھیں اُتنی ھی آراء ھیں ،، ھمیں اپنے اپنے مسلک کے آکسیجن ماسک چڑھائے گئے ھیں جبکہ ماسک ھٹایا جائے تو باھر آکسیجن کا سمندر ھے ،، ماننا یا نہ ماننا آپ کی اپنی مرضی پہ موقوف ھے کوئی مائی کا لعل آپ کو منوا نہیں سکتا ،، مگر جاننے میں کوئی حرج نہیں ،، کل کلاں آپکی اولاد آپ سے یہ سارے سوال کرے گی ، اور آپ کو ان کا سامنا کرنا ھو گا ،، اگر آپ ھر سوال کو کفر قرار دے دیں گے تو اپنی اولاد کو ھی کھو دیں گے ،،،،