اب تو خواہش ہے کے یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں!
لمحہ بھر کو ہی سہی اُس کو بھلا کر دیکھیں!
شہر میں جشن شب قدر کی ساعت آئــی!
آج ہم بھی تیرے ملنے کی دعا کر دیکھیں!
آندھیوں سے جو الجھنے کی کسک رکھتے ہیں !
اک دیا تیز ھـوا میں بھی جلا کر دیکھـیں !
کچھ تو آوارہ ھواؤں کی تھـکن ختم کریں!
اپنے قدموں کے نشاں آپ مٹا کر دیکھـیں!
زندگی اب تجھے سوچیں بھی تو دم گھٹتا ہے!
ہم نے چاھا تھا ، کبھی تجھ سے وفا کر دیکھـیں!
جن کے ذروں میں خزاں ہانپ کے سو جاتی ھے!
ایسی قـبروں پہ کوئی پھُول سجا کر دیکھیں!
دیکھنا ھو تو محبت کے عزاء داروں کو!
ناشناسائی کی دیوار گرا کر دیکھیں!
یوں بھی دنیا ھمیں مقروض کیے رکھتی ہے!
دست قاتل تیرا احساں بھی اٹھا کر دیکھیں!
رونے والوں کے تو ھمدرد بہــت ہیں محسن!
ہنستے ہنستے کبھی دنیا کو رلا کر دیکھیں!