فرعون کسی خواب کی بنا پر نہیں بلکہ بنی اسرائیل کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی کے تحت بنی اسرائیل کے بچے قتل کرا رھا تھا، ایک سال کے بچے چھوڑ دیتا تھا اور اگلے سال کے مروا دیتا تھا ، ھارون علیہ السلام تو اس سال پیدا ھوئے جس سال چھوٹ تھی جبکہ موسی علیہ السلام اس سال پیدا ھوئے جس سال مارنے کی باری تھی ،، قارون قومِ موسی کا آدمی تھا مگر اپنی قوم سے غداری کر کے فرعون سے مل گیا تھا ، وھی اس کا بڑا مخبر تھا جس کے کارندے بنی اسرائیل کے اندر موجود تھے جو خبریں دیا کرتے تھے ،اس نے باقاعدہ غنڈوں کا نیٹ ورک بنا رکھا تھا جو لوگوں پہ نظر رکھتا اور مسلمان ھونے والوں کو سبق سکھاتا تھا ، اللہ پاک نے سورہ یونس میں ارشاد فرمایا ھے کہ ” فما آمن لموسى إلا ذرية من قومه على خوف من فرعون وملئهم أن يفتنهم ” نہیں ایمان لائے موسی پر مگر اس کی قوم کے کم سن جوان ، فرعون کے ڈر سے اور اپنے میں سے پھنے خان لوگوں کے ڈر سے کہ وہ ان کو ستائیں گے- یہ پھنے خان اس قارون اور موسی علیہ السلام کے مخالف علماء بنی اسرائیل کے پروردہ تھے ،موسی علیہ السلام کی دعوت کی مخالفت نہ صرف شاھی محل کی طرف سے جاری تھی بلکہ خود بنی اسرائیل کے مفاد پرست لوگ بھی ان کی دعوت کی راہ میں روڑے اٹکا رھے تھے ،، اس کے امیر ھونے اور فرعون سے تعلق پیدا ھونے کی داستان بھی رسم پرستی کی بدترین مثال ھے ،، یہ ایک فقیر آدمی تھا ایک دن آلِ فرعون کا جنازہ جا رھا تھا کہ اس نے مرنے والے کے صدقے کچھ مانگ لیا ،، دینے والوں نے دے دیا ،، بس جناب اس نے اس کو مثال بنا کر آلِ فرعون کے ھر جنازے پر کچھ نہ کچھ لینا تجارت بنا لیا ،، وہ کہتا فلاں نے تو اتنا دیا تھا نتیجے میں اگلا اس سے بھی بڑھ کر دیتا تا کہ اس کے نام کی شہرت ھو ،، یہی کام اس نے بنی اسرائیل کے جنازوں میں بھی شروع کر دیا ،، دولت ھوئی تو پھر پیسے کو پیسہ کھینچتا ھے بزنس کے سو طریقے نکال لئے جب موسی علیہ السلام نے اس سے زکوۃ کا مطالبہ کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے یہ سب اپنا مغز مار کر کمایا ھے ،پھر اللہ کا حصہ کہاں سے اور کیوں دوں ، انما اوتیتہ علی علمٍ عندی،میں نے تو یہ اپنی تکنیک سے کمایا ھے ،، یہی ماسٹر مائنڈ تھا اس اسٹوری کا کہ جس میں ایک اوباش عورت کو پیسے دے کر راضی کیا گیا کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام پر عین خطبے کے درمیان الزام لگا دے کہ انہوں نے اس کی عصمت دری کی ھے ،، جب موسی علیہ السلام خطبہ دے رھے تھے اور موضوع بھی حدود کا تھا تو قارون کھڑا ھوا اور اس نے کہا کہ اے موسی یہ جو قوانین آپ بیان کر رھے ھیں کیا ان کا اطلاق صرف بنی اسرائیل پر ھی ھوتا ھے یا آپ پر بھی ھوتا ھے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کا قانون سب پر لاگو ھوتا ھے ، تب اس نے کہا کہ ” اے لوگو، اس مظلوم عورت کی بھی سنو یہ کیا کہتی ھے ، اللہ پاک نے اس عورت کے دل و دماغ کو قابو کر لیا اور اس نے صاف صاف کہا کہ مجھے قارون نے اتنے پیسے دیئے تھے کہ میں موسی پر یہ الزام لگا دوں ،، عورت کی بات سن کر موسی علیہ السلام غش کھا کر منبر سے نیچے گر پڑے ،، ھوش آنے پہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے موسی میں نے زمین کو تیرے اختیار میں دیا تو جو چاھے گا وہ سزا قارون کو دے گی ،، آپ نے زمین کو حکم دیا کہ وہ قارون کو نگل لے ، زمین نے جب قارون کو نگلنا شروع کیا تو اس نے کہا کہ موسی نے میری جائداد ھڑپ کرنے کے لئے یہ چکر چلایا ھے ، آپ نے زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کی جائداد کو بھی ھڑپ کر لے ،، یوں وہ اور اس کے محل اور ماڑیاں سونے چاندی کے ڈھیر سب زمین کے پیٹ میں اتر گئے ، یہ اصلاً کافر ھی تھا منافق بنا ھوا تھا ،،
ولقد أرسلنا موسى بآياتنا وسلطان مبين ( 23 ) إلى فرعون وهامان وقارون فقالوا ساحر كذاب ( 24 ) فلما جاءهم بالحق من عندنا قالوا اقتلوا أبناء الذين آمنوا معه واستحيوا نساءهم ( المومن )…
یہی وہ الزام تھا جس کا ذکر سورہ احزاب کے آخری رکوع میں ھوا ھے ، اور وھاں اس کا پسِ منظر بھی یہی ھے کہ خود حضورﷺ کو حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں اسی قسم کے الزامات کا نشانہ بنایا جا رھا تھا ،لہذا فرمایا کہ اے ایمان والو تم موسی کی قوم کی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے موسی کو اذیت دی تھی تو اللہ نے انہیں اس الزام سے بری کر دکھایا تھا ،،، اور وہ اللہ کے یہاں ایک باکردار تھا ،،