یہ 1964 کی بات ھے

عشق کا قاف ،،،،

اسے جڑانوالہ قصبے سے اپنے گاؤں جانا تھا ، یہ قصبہ منڈی ھونے کی وجہ سے بارونق تھا ،مگر لوگ سرِ شام ھی واپس دیہات کو سدھار جاتے تھے اور قصبے میں شام کو ھی رات اتر آتی تھی !
جڑانوالہ سے جانے والی آخری بس اڈے میں کھڑی تھی ، پوری بس میں صرف سات سواریاں تھیں اس لئے ڈارئیور بھی ٹکٹ دینے والے کلرک کے برابر میں بینچ پر جا کر بیٹھ گیا تھا ،، سواریوں کے دل وسوسوں میں گرے تھے ، بس جائے گی بھی یا نہیں ؟ تمام سواریاں دیہات کی تھیں، اس لئے اس تاخیر کا ایک ایک لمحہ انہیں اندیشوں میں مبتلا تھا ،خود اسے یہ خیال ستائے جا رھا تھا کہ چار میل کا وہ ٹکرا جہاں سے اسے پیدل جانا تھا کیسے طے کرے گا ! اکا دکا چائے کی دکانیں کھلی تھیں باقی بازار بند ھو چکا تھا- بس کے قریب ھی ایک چھابڑی فروش چھابڑی پر لالٹین رکھے وقفے وقفے سے آواز لگاتا تھا،، اس چھوٹے سے قصبے میں کوئی ھوٹل بھی نہیں تھا کہ جاہں رات گزاری جا سکے ! اور دیہاتی تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے انہیں بس اپنے گھر جانا تھا چاھے رات آدھی گزر جائے !
ایک سواری نے سر شیشے سے نکال کر ڈرائیور سے پوچھا بھائی جاؤ گے نہیں ؟ ڈارئیور نے کہا کہ جائیں گے کیوں نہیں بس ایک آدھ سواری آ جائے تو چلتے ھیں،،کیا خالی بس لے جاؤں ؟ ڈارئیور کے جواب سے امید کی کرن جاگی تو ایک سواری نے مڑا تڑا مسلا ھوا سگریٹ نکالا اور دوسرے آدمی سے ماچس لے کر جلایا اور ایک لمبا کش لے کر امید کا دھواں بس میں پھیلا دیا !
اچانک بس کے قریب سے اندھیرے میں سے کسی فقیر کے اکتارے کی آواز گونجی !
ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، عشق سلامت کوئی ھُ۔و !
ایمان منگن شرماون عشقوں ، دل نوں غیرت کوئی ھ۔ُو !
آواز میں عجیب سی لوچ اور لذت تھی، اندھیری رات میں اکتارے کی آواز ٹپا کھا کر دل کے تاروں کو چھو رھی تھی ! آواز قریب آتی جا رھی تھی، اس نے شیشے سے باھر دیکھا تو چھابڑی والے کی لالٹین کی روشنی میں ایک فقیر کندھے پہ اپنی گُدڑی رکھے اکتارے کو شانے سے ٹکا کر بجاتا ھوا بس کی طرف آ رھا تھا ! فقیر عین اس کے شیشے کے سامنے آ کر کھڑا ھو گیا تھا ، گویا اسے اسی سوٹڈ بوٹڈ بابو سے کچھ ملنے کی توقع تھی ! اس نے اکتارے کے تاروں پہ شہادت کی انگلی رکھی اور اپنا پیغام شروع کر دیا !
جس منزل نوں عشق پہنچائے ، ایمانوں خبر نہ کوئی ھُو !
میرا عشق سلامت رکھیں ، ایمانوں دیاں دھروئی ھ۔۔ُو !
اکتارے والے کے بول اگرچہ اس کے من کے تار ھلا رھے تھے مگر انگریزی ،فرانسیسی ،اور روسی ادب میں ماسٹر کرنے والا ،ایک مدعئ شریعت شخص ایک دیہاتی بھک منگے کو غیر شرعی اک تارے پر پنجابی بیت کی داد کیسے دے سکتا تھا؟ اس نے منہ دوسری طرف کر لیا گویا کہہ رھا ھو کہ بابا جاؤ معاف کرو ،مگر بابا بھی شاید آیا نہین بھیجا گیا تھا کہ آج عشق کا پودا اس کے اندر لگا کر جانے کا تہیہ کیئے بیٹھا تھا ، اس کے اکتارے کی ھر ضرب کے ساتھ اسے یوں لگتا تھا جیسے ستارے بھی جنجھنا اٹھتے ھیں ساتھ اس کا دل بھی جھول رھا تھا ،،اس نے اپنے آپ سے سوال کیا یہ عشق کیا ھے ؟ یہ کیسی آرزو ھے کہ رومی ،حافظ ، اقبال سبھی اس کے آرزومند رھے ھیں ؟!اس سے پہلے کہ اس کا دل کوئی جواب دیتا اکتارے والے نے پھر تان اٹھائی !
اندر وی ھو ، باھر وی ھُو ، باھُو کتھے سبِھیوے ھو ؟
ریاضتاں کر کر آھاں توڑے، خون جگر دا پیوے ھ۔ُو !
لکھ ھزار کتاباں پڑھ کے ، دانشمند سدِیوے ھُو !
نام فقیر تنہاں دا باھُو ، قبر جنہاں دی جیوے ھ۔ُو !
اندر بھی وھی ھے باھر بھی وھی ھے،پھر باھو کے لئے کونسی جگہ بچی ھے ۔فقیر تو اندر باھر اسے دے کر خود قبر میں جا کر جیتے ھیں تب ھی فقیر کہلاتے ھیں !
کرسی پر بیٹھے ڈرائیور نے اکتارے والے کو آواز دی ،اے بابا ادھر آؤ،،
اکتارے والا اپنی نپی تلی رفتار سے چلتا ھوا ڈرائیور کی طرف چلا گیا گویا کوئی اسے تیز قدم اٹھانے پہ مجبور نہیں کر سکتا تھا ! ڈرائیور نے جیب سے کچھ نکال کر اسے دیا اور مزید لمبا ھو گیا ،، اس پر ایک سواری نے پھر پوچھا استاد جاؤ گے نہیں ؟ استاد نے ایک فلسفیانہ جواب دیا ،، ھم چلنے ھی کے لئے تو آئے ھیں ، بس وقت آنے پہ چل دیں گے ،، گاڑی میں ایک لڑکا ،ایک بوڑھا اور ایک نوجوان رہ گیا تھا ،وہ بھی گاڑی سے اتر آیا اور بس کے الٹے رخ منہ کر کے کھڑا ھو گیا گویا وہ دوسروں سے کوئی الگ تھلگ مخلوق تھا ! مگر باھو کے ابیات مسلسل اس کے اندر بج رھے تھے ! اور اس کی عقل اس کے دل سے سوال کر رھی تھی کہ عشق کیا ھوتا ھے !
اچانک اس نے جو سر اٹھایا تو اکتارے والا بالکل اس کے سامنے کھڑا اسے گھور رھا تھا ! اس کا جی چاھا کہ وہ اکتارے والے کا دامن پکڑ لے اور اسے کہے کہ بابا وہ ابیات پھر سناؤ،مگر اس کے اندر کا ثقافت یافتہ (Civilized ) بابو ایک دفع پھر آڑے آ گیا ،، اس نے اس کو یہ سوال کرنے سے روک دیا ۔۔اس نے اپنی جیب کی طرف ھاتھ بڑھایا اور اچانک یوں لگا جیسے اس پر سے علم و ادب کے وقار ،خودداری ،علمی برتری سب برف بن کر پگھل رھے ھیں ،، اچانک وہ سوال اس کے لبوں سے پھسل گیا،، بابا آپ نے عشق کی سلامتی مانگی ھے ، یہ عشق کیا ھوتا ھے ؟
فقیر بڑھاپے کی دہلیز پہ کھڑا تھا اس کی داڑھی میں کہیں کہیں کالا بال تھا، گودڑی اس کے بائیں کندھے پر تھی اور لالٹین کی لو اس کی آنکھوں میں ٹمٹما رھی تھی ! اس نے آئستہ سے کہا ۔، میاں جی بھوک کیا ھوتی ھے ؟ اس نے کوئی جواب دینا چاھا ،، مگر الفاظ اس کے ھونٹوں پہ آ آ کر ٹوٹ رھے تھے ، فقیر نے یہ کیا بات کر دی تھی ،، بھوک تو ایک کیفیت ھے ،کیفیت کیسے بتائی جا سکتی ھے ،،convey کی جا سکتی ھے،،بھوک تو بس لگ کر ھی بتاتی ھے کہ میں یہ ھوں ! کیا فقیر یہ کہنا چاھتا ھے کہ بابو جی عشق میں مبتلا ھوئے بغیر عشق کا پتہ نہیں چلتا ،،نہ عشق عشق کرنے سے عشق منتقل ھوتا ھے ،، نہ آگ اگ کرنے سے آگ لگتی ھے ،، ایک خیال آرھا تھا اور جا رھا تھا کہ اچانک فقیر نے ھولے سے کہا !
میاں جی بھوک نہ ھو تو روٹی بھی نہیں کھائی جا سکتی ! یہ کلائمیکس تھا ،، اندر پندار کے بت چھن چھن ٹوٹ رھے تھے،، عشق نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے لوگ جان چھڑاتے پھرتے ھیں اس بےعشق کے ایمان سے ،، عشق ایمان کا قلعہ ھے ،، وھی اس کا دفاع کرتا اور اس کی خاطر جان دینے کا حوصلہ دیتا ھے ،،بے محبت کا ایمان صرف عبداللہ ابن ابئ پیدا کرتا ھے !
زندگی بھر کے پڑھے گئے سارے فلسفے آج اس ایک جملے کے سامنے ھاتھ باندھے کھڑے تھے !
بابو جی بھوک نہ ھو تو روٹی بھی نہیں کھائی جاتی ، کھانا بوجھ بن جاتا ھے !
عشق نہ ھو تو ایمان بوجھ اور عمل نفاق بن جاتا ھے !

فیس بک پوسٹ لنک