یہ تو وھی جگہ ھے

وہ دونوں آپس میں چچا زاد تھے ، اور دونوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے ، بلکہ ایک ھی حویلی میں دیوار کھڑی کر کے دونوں گھروں کو الگ کیا گیا تھا ،چار پانچ سال کی عمر سے ھی دونوں اکٹھے والدین کے ساتھ مونگ پھلی چننے جایا کرتے تھے ،، اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رھا کہ وہ اسکول سے آتے تو بستہ رکھ کر کھرپی اور کپڑا لیتے اور کھیتوں کو چلے جاتے ،، دونوں ایک دوسرے سے اس قدر مانوس ھو چکے تھے کہ ایک دوسرے کے بغیر انہیں چین نہیں ملتا تھا ،، 5 یا 7 سال کی عمر ایسی نہیں ھوتی کہ اسے عاشقی معشوقی کی عمر گردانا جائے مگر اسی عمر میں اس عشق نام کی اصطلاح سے ناواقفیت کے باوجود وہ ایک دوسرے کے Addict ھو چکے تھے ، ان میں سے ایک کی عدم موجودگی پر دوسرا بھی کھیتوں میں نہیں جاتا تھا ،، جو چیز دونوں کو میسر ھوتی پہلے دوسرے کا حصہ الگ کر کے رکھتا ،پھر اپنا حصہ کھاتا ،، بعض دفعہ ایسا ھوتا کہ نوشین کو ڈانٹ یا مار پڑتی تو اس کی ضربیں ناصر کو اپنے بدن پہ محسوس ھوتیں ،، وہ امی کی منتیں کر کے بھیجتا کہ وہ جا کر نوشی کو چھڑائیں ،، اور کبھی ناصر کے کھانے پہ پابندی لگتی تو نوشی کے حلق سے بھی لقمہ اندر نہ جاتا ،جب تک وہ اپنے کھانے میں سے کچھ چھپا کر ناصر تک نہ پہنچا دے ،،،،،،،، دونوں میٹرک میں پڑھتے تھے مگر عجیب بات یہ تھی کہ انہوں نے آج تک ایک دوسرے سے اظہار محبت نہیں کیا تھا ، بلکہ اب آپس میں بات چیت بھی کم ھی کیا کرتے تھے مگر وہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے گھر میں رہ کر بھی محسوس کرتے تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، نوشی کی تعلیم کا سلسلہ میٹرک کے بعد رک گیا تھا جبکہ ناصر بی- اے میں پڑھ رھا تھا جب اس کی امی نے اسے بڑے رازدارانہ انداز میں ایک طرف لے جا کر بتایا کہ اس کی پھوپھو اپنے بیٹے کے لئے نوشی کا رشتہ مانگنے آئی ھے ،، اور کل وہ لوگ اس سلسلے میں بات چیت کرنے نوشی کے گھر آئیں گے ،، اگر تمہاری مرضی ھو تو میں ان سے پہلے تمہاری چچی سے بات کروں ،، کیونکہ وہ تم میں دلچسپی رکھتی ھیں مگر تمہارا چچا شاید اپنی بہن کے بیٹے کی طرف مائل ھے،، ناصر نے امی کو فوراً چچی سے بات کرنے کے لئے کہا ،،
ناصر کی امی جھٹ سے دیوار کی دوسری طرف پہنچ گئیں اور ناصر کی بات چلائی مگر چچی نے یہی کہا کہ ناصر کے ابا کو ساتھ لے کر آپ رات کو آ جائیں پھر جو اللہ پاک چاھے گا ،، ناصر کے ابا نے ناصر سے کہا کہ میں تمہاری خاطر بھائی جان کے گھر چلا تو جاتا ھوں مگر مجھے بھائی جان سے کسی قسم کی امید نہیں ھے لہذا آپ بھی کچھ زیادہ امید مت رکھنا ،،، رات کو دونوں بھائیوں کی ملاقات ھوئی اور نتیجہ وھی نکلا جس کا خدشہ ناصر کے ابو نے پہلے ھی ظاھر کر دیا تھا ،، نوشی کے ابو نے صاف جواب دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی ناصر کو نہیں دیں گے بلکہ اپنی بہن کو بھائی پر ترجیح دیں گے ،،
اگلے دن ناصر کی پھوپھو نے نوشی کو انگوٹھی پہنائی اور یوں ناصر اور نوشی کے درمیان پہلی دفعہ اجنبیت کی دیوار حائل ھو گئ ،، نوشی نے وہ ساری رات سسک سسک کر گزاری اس نے امی کو کہا تھا کہ وہ ابو سے کہیں کہ نوشی کی مرضی چچا کے گھر ھے ، اور نوشی کی امی نے ڈرتے ڈرتے یہ بات شوھر کو پہنچا بھی دی تھی ،، نوشی کے ابو کا جواب تھا کہ میں نے اسی لئے بیٹی آگے نہیں پڑھائی تھی کہ اسے باھر کی ھوا نہ لگے مگر اس احتیاط کے باوجود وہ پسند ناپسند کے چکر میں پڑ گئ ھے ، اسے صاف صاف بتا دو کہ جو میری زبان سے نکل گیا ھے وھی تمہاری زبان سے نکلنا چاھئے ورنہ یہ زبان کاٹ کر کتے کو کھلا دوں گا ،،،،،،،،،،،،
ادھر ناصر نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ نوشی کسی غیر کے گھر جائے گی وہ تو اسے گھر کی چیز سمجھے بیٹھا تھا کہ بس ایک دن ڈھول والا ساتھ لے جاؤں گا اور ڈولی اٹھا کر لے آؤں گا ،، مگر تقدیر کچھ اور ھی طے کر چکی تھی ،،، دو سال پلک جھپکتے گزر گئے اور نوشی کی شادی کی تیاریاں شروع ھو گئیں ، ناصر جاب کرتا تھا اور اب گھر آنا بھی چھوڑ دیا تھا اسے کام کے ساتھ ھی رھائش مل گئ تھی ،،
ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ دو سال نوشین نے آرام سے گزار دیئے تھے – اس نے پھوپھو کی منت کی کہ وہ یہ منگنی توڑ دیں مگر پھوپھو کے بقول اس کے باپ نے اپنے بھائی کے منہ پہ جوتا مار کر اسے رشتہ دیا تھا اب وہ بھائی کی عزت کو بٹا نہیں لگنے دے گی ،، پھر اس نے پھوپھو کے لڑکے کو کہا کہ مرد بنو اور اس رشتے سے مُکر جاؤ جب کہ تم جانتے ھو کہ میں کسی اور سے پیار کرتی ھوں ،پھر تمہاری غیرت کیسے گوارا کرتی ھے مجھ سے شادی کرنے کو ؟ مگر وہ بھی اللہ کی گائے تھا ،، تم میری نہیں بلکہ میری امی کی پسند ھو اور میں امی کی عزت کو خاک میں نہیں ملاؤں گا ،،،،،،،،،،،،،،،،،
پھر نوشین نے مسجد کے امام صاحب سے ایک نامعلوم لڑکی کے نام پہ مسئلہ پوچھا کہ اگر ایک انسان جماعت میں دیگر لوگوں کے ساتھ قیام ، رکوع اور سجود وغیرہ کر کے امام صاحب کے ساتھ التحیات بیٹھ کر سلام پھیر دے مگر اس سارے عمل کے دوران اس کی نیت نماز کی نہ ھو بلکہ اپنے والد کو دکھانا مقصود ھو کہ وہ جماعت میں موجود ھے تو کیا اس کی نماز صرف فرائض و واجبات ادا کرنے اور ابا جی اور مولوی صاحب کے دیکھ لینے سے ادا ھو جائے گی ؟ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ انما الاعمال بالنیات ،، نیت نماز کی پہلی شرط ھے اس کے بغیر نماز نہیں ھوتی ،،،،،،، نوشین نے دوسرا سوال ورق کی دوسری جانب لکھا تھا جو پہلے سوال کے جواب پر جوابی سوال تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مولوی صاحب کیا جواب دیں گے ،، دوسرا سوال پڑھ کر مولوی صاحب کے اپنے طوطے اڑ گئے ،،
مولوی صاحب اگر نیت کے بغیر نماز نہیں اگرچہ تمام شرائط و ارکان ادا ھو گئے سوائے اس بندے کی مرضی کے ،، کہ وہ نماز پڑھنے پہ راضی ھے یا نہیں ؟ تو پھر وہ نکاح کیسے ھو جاتے ھیں جن میں گواہ بھی موجود ھوں ، نکاح خوان بھی موجود ھو ، ولی بھی موجود ھو ، مگر لڑکی کی نیت دور دور تک اس لڑکے کے ساتھ نکاح کرنے کی نہ ھو ،،، آپ رجسٹر اندر بھیج دیتے ھیں لڑکی کے دستخط کے لئے ،یہ سوچے بغیر کہ لڑکی سے یہ دستخط کس طرح لیئے جاتے ھیں ، کبھی کسی لڑکی سے خود سوال کیا ھے کہ اسے یہ نکاح قبول ھے یا نہیں ؟ میں تو سمجھتی ھوں کہ آپ نکاح خوانوں کے خلاف سب سے زیادہ کیس حشر کے دن لڑکیوں کی زبردستی شادی کے آئیں گے ،، مولوی صاحب کو دن میں تارے نظر آ گئے ،، مجبور ھو کر انہوں نے اس مسئلے کو جمعے کا موضوع بنایا اور لڑکی کی رضامندی کی اھمیت پر روشنی ڈالی مگر بد قسمتی سے نوشین کے ابو اس روشنی سے محروم رھے ،، وہ اس دن کسی کام سے کچہری چلے گئے تھے ،،
شادی کے دن ناصر پہ تو جو قیامت گزری سو گزری مگر نوشین بھی ایک عذاب میں مبتلا تھی وہ اپنے سارے پتے کھیل چکی تھی ،، اب وہ ارادہ رکھتی تھی کہ نکاح کے رجسٹر پہ کسی صورت دستخط نہیں کرے گی ، اس بات کی بھنک اس کے ابا کو بھی مل چکی تھی اور انہوں نے رات کو نہ صرف لوھے کے سریئے سے مار مار کر اس کا سر پھاڑ دیا اور گوشت ادھیڑ کر رکھ دیا بلکہ قسم کھائی کہ اگر اس نے کل دستخظ نہ کیئے تو وہ اسے گولی مار کر خود بھی خود کشی کر لیں گے ،،،،،،،، یہ وہ رات تھی جس میں نوشین نے بار بار خود کشی کا سوچا ،، وہ اس عزت دار ابا کی فرعونیت کا جواب خودکشی کے پتھر سے دینا چاھتی تھی مگر بار بار اسے یہ خیال روک دیتا تھا کہ یہ اللہ کی نافرمانی اور حرام موت ھے ،، اگر اپنی مرضی کی خلاف ورزی پہ مجھے اتنی تکلیف اور غصہ ھے تو اللہ پاک کو اپنے حکم کی خلاف ورزی پہ کتنا غصہ آئے گا ؟ وہ اللہ سے غصے کی حالت میں ملاقات نہیں کرنا چاھتی تھی ،،
خود کشی کا خیال بار بار ناصر کو بھی آ رھا تھا مگر اسے بار بار اپنے والد کا خیال آتا تھا کہ ان پہ کیا گزرے گی ،، ایک تو وہ بے عزت کیئے گئے دوسرا اکلوتے بیٹے سے محرومی کا دکھ ،، وہ اپنی خودکشی سے اپنوں کو ھی دکھ نہیں دینا چاھتا تھا ،، شادی والے دن نوشین نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے آپ کو رب کے حوالے کر دیا ،،، نوشین نے زخم زخم بدن اور تار تار روح کے ساتھ دستخط کر دیئے مگر یہ گویا اپنی موت کے محضرنامے پہ دستخط تھے ،، رخصتی کے وقت بھی اس پہ غشی کے دورے پڑ رھے تھے ،، ساری برادری حقیقت سے آگاہ تھی کہ ایک باپ اپنی بچی کو اپنی ناک کی بھینٹ چڑھا رھا ھے ،نوشین تو روئی سو روئی شادی میں سریک ھر عورت زار وقطار رو رھی تھی ،، اور پھر آسمان بھی رو پڑا شدید بارش نے ھر طرف جل تھل کر کے رکھ دیا اور افراتفری میں ھی بارات دلہن لے کر رخصت ھو گئ ،،،،،،،،،، اس دن ناصر گاؤں نہیں آیا تھا ،،
ناصر کے ابا جان سائے کی طرح اس کے ساتھ لگے ھوئے تھے وہ جانتے تھے کہ وہ کس کشمکش سے دوچار ھے ،فجر کی نماز میں قاری صاحب نے سورہ طہ کی قرأت کی تو دوسری رکعت میں ناصر کی رو رو کر گھگھی بند گئ ،، قاری صاحب اسے اپنی قرأت کا کمال سمجھے تو نمازی اسے ناصر کی رقت قلبی اور احساس گناہ کی کرامت سمجھے کئ دیگر نمازی بھی سسک اٹھے مگر ناصر کے ابا جان مطمئن تھے کہ آخر طوفان برس پڑا تھا اور ٹھیک جگہ پہ برسا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،،
نوشین اپنے گھر کی ھو گئ تو ناصر بولایا بولایا پھرتا تھا ، کسی سے کھل کر بات نہ کرتا اسے چپ سی لگ گئ تھی ،، دنیا کے تمام حصوں میں اس بیماری کا ایک ھی علاج والدین کی سمجھ میں لگتا ھے کہ لڑکے کی شادی کر دو ،، آنے والی ” ٹیون ” کر لے گی ،، مگر محبت جنسی جذبے سے بالا تر ایک جذبے کا نام ھے ،، یہ کبھی بھی کی نہیں جاتی بلکہ ھو جاتی ھے اور اس ھونے کا کوئی سبب بھی بیان نہیں کیا جا سکتا ،، خود خالق کی انسان سے محبت کا سبب تلاش نہیں کیا جا سکا حالانکہ اس پہ سیکڑوں کتابیں اور دسیوں تفسیریں لکھی جا چکی ھیں ،، کمال تو یہ ھے کہ خود خالق نے انسان سے محبت کا اقرار تو فرمایا ھے ،،،،،، مگر سبب بیان نہیں کیا کہ آخر فرشتوں جیسی معصوم و بے گناہ مخلوق کو چھوڑ کر اس گناہ کی پوٹلی سے اسے کیوں محبت ھے ،، لیلی کے بارے میں قیس کے عشق کی شدت پہ سب حیران تھے کیونکہ بظاھر وہ ایک کالی سی عورت تھی ،مگر قیس اس کے لئے پاگل بنا پھرتا تھا ،مجنون کہلاتا تھا اور اس کے گھر سے نکلنے والے کتے کی آنکھیں بھی چوم لیتا تھا کہ ان آنکھوں نے لیلی کو دیکھا ھے ،،،،،
ناصر سے بھی شادی کے لئے اس کی رائے لی گئ ، اس نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ والدین کے کہنے پہ کہیں بھی شادی کر لے گا کیونکہ اب اس کی مزید کوئی پسند باقی نہیں رھی ، اس کے لئے اب دنیا کی ساری عورتیں برابر تھیں مگر اس نے یہ ضرور واضح کر دیا تھا کہ وہ اسے وہ محبت نہیں دے پائے گا جو اس کا حق ھے مگر اس کے دیگر حقوق میں کوئی کمی بیشی نہیں کرے گا ،،
نوشین کو اللہ پاک نے پہلے سال ھی بچے سے نواز دیا جس کا نام اس نے ناصر رکھا اور اس نام کے لئے پلاسی کی جنگ لڑی ،، شوھر سمیت سسرال کا کوئی فرد ناصر نام پہ راضی نہیں تھا ،،مگر نوشی کا کہنا تھا کہ ناصر اس کا بچہ ھے اور اس کے بچے پہ اس کی مرضی چلے گی کیونکہ اذیت اس نے برداشت کی ھے ، اگر کسی نے اسے یہ نام نہ رکھنے دیا تو وہ بچے کا گلا گھونٹ دے گی ،، سارے اس کی دھمکی سے ڈر کر خاموش ھو گئے ،،،،،، دوسری جانب اللہ پاک نے ناصر کو بھی لڑکی سے نوازا ،،،،،،، اور اس نے بیٹی کا نام نوشین رکھ دیا ،،،،،،،،،،
نوشین شادی سے لے کر ناصر کو ایک لمحہ بھی نہیں بھولی تھی، اور بھولنا اس کے بس میں تھا بھی نہیں ،، بلکہ یہ کسی انسان کے بس کی بھی بات نہیں ،، اللہ پاک جانتا ھے کہ کیا انسان کے بس میں ھے اور کہاں انسان بےبس ھے ،، ناصر پہ بھی کبھی وہ دن نہیں گزرا جب اس نے نوشین کو بھلایا ھو ،، اولاد ھو جانے کے باوجود دونوں اگر کسی خاندانی تقریب میں ایک گھر میں ھوتے تو بالکل بچپن کی طرح ایک دوسرے کو بغیر دیکھے محسوس کرتے ، ان کی باڈی لینگویج تبدیل ھو جاتی یوں لگتا گویا انہیں لگتا ھے کہ دوسرا اسے دیکھ رھا ھے ، ان کی محبت اسی جگہ اور اسی نفاست اور ٹیمپو کے ساتھ موجود تھی ،، یہ صرف ناصر اور نوشین کا معاملہ نہیں ھر محبت کرنے والا جوڑا الگ الگ شادیاں ھو جانے کے باوجود وہ مرتے دم تک ایک دوسرے کو نہیں بھُولتے چاھے ان کے سات سات بچے ھو جائیں ،وہ خود اسی جگہ کھڑے ھوتے ھیں جہاں سے جدا ھوئے تھے ،مرتے دم تک ان کی محبت Pause پہ لگی رھتی ھے ،، یہانتک کہ خواب بھی وہ اسی زمانے اور اسی عمر کے دیکھتے ھیں ،ٹائم اینڈ اسپیس ان کے اندر کی دنیا پہ کوئی اثر نہیں کرتے ،، وہ جب بھی کہیں ایک دوسرے کا تذکرہ سنتے ھیں تو دل اسی زور سے دھڑکتا ھے اور تقاضا کرتا ھے کہ بس یہی تذکرہ چلتا رھے ،، والدین کے جبر کے فیصلے مجرد اجسام پہ لاگو ھوتے ھیں ،محبت تو روح کی گہرائی میں اسی طرح موجود رھتی ھے ،، وہ جو شادی کے بعد شروع ھوتی ھے وہ ورکنگ ریلیشن شپ ھوتی ھے ،، بہت ھی کم خوش نصیب ایسے ھوتے ھیں جو اسے پا بھی لیتے ھیں جسے چاھتے ھیں اکثریت جبر کے تحت دوسری گاڑی پر بٹھا دینے والوں کی ھوتی ھے ،،،،،،،،
نوشین کے یہاں ناصر کے سوا کوئی اولاد نہیں تھی کہ اچانک ایک دن اس کا شوھر ویگن کے حادثے میں جان ھار گیا ،، وہ ابھی عمر کے بیالیسویں سال میں تھی کہ بیوہ ھو گئ اس کی دنیا اب صرف ناصر کے سورج کے گرد گھومتی تھی ،، اس دوران ناصر سینئر کی بیوی بھی زچگی کے دوران بچے سمیت اللہ کو پیاری ھو گئ ،،والدین پہلے ھی انتقال کر چکے تھے لہذا وہ اپنی بیٹی کا ھو کر رہ گیا ،،
ناصر جونیئر اور نوشی جونیئر اسکول سے کالج منتقل ھو چکے تھے ایک ھی وین میں پہلے اسکول اور پھر کالج جاتے جاتے وہ بھی اسی بلا میں گرفتار ھو چکے تھے جسے ان کے والدین نے بھگتا تھا ،، صرف نام مشترک نہیں تھے بلکہ شاید نصیب بھی مشابہ تھے ، وہ دونوں بھی بس ایک دوسرے کو محسوس ھی کیا کرتے تھے ،، اس سے زیادہ کی نوبت ان دونوں میں بھی نہیں آئی تھی ،، یوں لگتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ھیں ،، دونوں میں سے کوئی اگر کالج نہ جاتا تو دوسرے کو تب تک چین نہ آتا جب تک کسی نہ کسی واسطے سے ایک دوسرے کی خیریت دریافت نہ کر لیتے،، آخر وہ دن بھی آ پہنچا جو نوشین سینئر کی زندگی میں آیا تھا ،،،،، ناصر کے یہاں برادری کے ھی ایک لڑکے کا رشتہ آیا جو کہ فوج میں کیپٹن تھا ،رشتہ پرکشش تھا اور ناصر نے اس پہ غور کرنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا ،، ناصر جونیئر کو پتہ چلا تو اس نے اپنی ماں نوشین سے کہا کہ وہ نوشین جونیئر کے رشتے کی بات چلائے ،، نوشین نے اسے غور سے دیکھا ،اسے اس کی آنکھوں میں وھی کرب نظر آیا جو کبھی آئینہ دیکھتے ھوئے اپنی آنکھوں میں نظر آتا تھا ،، وہ پریشان ھو گئ ،وہ جانتی تھی کہ ناصر اس خاندان سے کتنی نفرت کرتا ھے جس نے اس کی محبت اس سے چھینی تھی ،، مگر کچھ بھی کرنے سے پہلے وہ ناصر کی بیٹی نوشی سے بات کرنا چاھتی تھی ،، آخر کسی بہانے سے وہ ناصر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر گئ اور نوشی سے ناصر کے بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی ناصر سے شادی پہ رضامند ھو گی یا اس کی مرضی کہیں اور ھے ،،،،، ؟ نوشی نے جس انداز میں بات کی وہ خود اس سے بخوبی آگاہ تھی ،،، نوشین کی طرف سے مطمئن ھونے کے بعد نوشین نے اگلے ھی دن ناصر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ،، شادی کے بعد یہ ان کا آپس میں پہلا براہ راست رابطہ تھا ،، دروازہ ناصر نے ھی کھولا تھا اور دروازے پہ نوشین کو دیکھ کر ،،،،،، دیکھتے کا دیکھتا ھی رہ گیا ،، یہ اس کے تصور سے بالا بات تھی کہ نوشین اس کے دروازے پہ اس طرح بھی آ سکتی ھے ،، اسے اس کے سوا اور کچھ نہ سوجھا کہ اس نے دروازہ چھوڑ کر نوشین کو اندر آنے کا رستہ دے دیا ، نوشین گھر پہ تھی اس نے اسے ھاتھوں ھاتھ لیا اور لے جا کر ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور چائے بنانے چلی گئ ،، ناصر اندر جاتے ھوئے گھبرا رھا تھا یا شاید شرما رھا تھا ،وہ کالج ایج میں چلا گیا تھا ،، وھی محبت کے Pause والی عمر ،، نوشی نے اسے کہا کہ ابا جان آپ آنٹی کے ساتھ جا کر بیٹھیئے میں چائے بنا کر لاتی ھوں ،، مگر ناصر نے اسی کو اندر بھیج دیا اور خود چائے بنانے لگ گیا ،، نوشین باپ کے رویئے پہ حیران تھی ،، ناصر نے بھی یہ نہیں سوچا کہ چائے بنانے میں آخر سال تو نہیں لگے گا چند منٹ کے وقفے کے بعد پھر اسے نوشین کا سامنا کرنا پڑے گا ،، ناصر نے چائے تیار کی اور نوشی کو آواز دے کر بُلایا ،، بیٹا یہ آنٹی کے آگے رکھ دو ،، پاپا میں آپ دونوں کے لئے چائے لے کر آتی ھوں آپ چلیں ڈرائنگ روم میں آنٹی آپ کو ملنے آئی ھیں ،،،،،،
ناصر ڈرائنگ روم میں نظریں جھکائے داخل ھوا اور چپکے سے ایک کرسی پہ بیٹھ گیا ،، آپ شاید کسی بڑے کی موجودگی میں مجھ سے ملنا چاھتے ھیں ،، نوشین نے اچانک حملہ کیا تو ناصر ھکا بکا رہ گیا ،، وہ ،خیر، نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ناصر نے بمشکل اپنا جملہ مکمل کیا ،، لگتا تو کچھ ایسا ھی ھے ،، میں بھی آپ کے پاس آنے پہ مجبور ھو گئ تھی ورنہ میری اپنی کیفیت بھی کچھ آپ ھی جیسی ھے ،، نوشین انتظار کر رھی تھی کہ نوشی چائے رکھ کر چلی جائے تو وہ بات شروع کرے ،،،،،،، نوشی نے چائے اور بسکٹ ٹیبل پہ رکھے اور خود دوسرے کمرے کے دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئ ،،
میں آپ کے پاس اسی کام سے آئی ھوں جس کام سے آپ کے ابا جان میرے ابا جان کے پاس آئے تھے ،، میں نوشی کا ھاتھ اپنے بیٹے ناصر کے لئے مانگنے آئی ھوں ،،،،،،،،،،
نوشین کی بات سن کر ناصر کو جھٹکا لگا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ کیا بات ھوئی ؟ ناصر نے تیز لہجے میں کہا ،، دیکھیں میں کوئی ایسی بات کہنا نہیں چاھتا جس سے آپ کو صدمہ پہنچے یا میرے بارے میں آپ کا دل بُرا ھو ،، میں اپنے آپ سے زیادہ آپ کی خوشی چاھتا ھوں اور آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ھیں ،،،،،،،،، اللہ اللہ ،،،،،، یہ وہ چند جملے تھے جنہیں وہ ساری زندگی کہہ نہیں پایا تھا اور اب غصے میں کہہ بیٹھا تھا ،،، آخر آپ کے ناصر میں وہ کونسے سرخاب کے پر لگے ھیں جو مجھ میں نہیں تھے کہ آپ کے ابا جی نے مجھے ریجیکٹ کر دیا تھا ، ناصر نے اپنی بات کو جاری رکھا ،، اس شخص کے بیٹے کو میں اپنے جگر کا ٹکڑا دے دوں جس نے میری زندگی مجھ سے چھین کر میری دنیا اندھیر کر دی ؟؟
پھر کہہ رھی ھے ھم سے یہ گردشِ زمانہ !
ھم چھیڑ دیں وھیں سے بھولا ھوا فسانہ !
میں آپ سے اس جواب کی توقع نہیں رکھتی تھی جناب ناصر صاحب ،، کیونکہ میرے دل و دماغ میں آپ کا مقام اس سے بہت بلند ھے ،، یوں تو میں بھی کہہ سکتی ھوں کہ میں،مرحومہ ثمرین کی بیٹی کا رشتہ مانگنے آئی ھوں ،، آپ کو اچھی طرح معلوم ھے کہ میں نے بیٹے کا نام ناصر رکھا تھا اور اس کے پیچھے کوئی جذبہ تھا، مجھے افسوس ھے کہ آپ نے آج میرے اس جذبے کی توھین کر دی ،،
ناصر صاحب یاد رکھیں قدرت کبھی اپنے اوپر الزام نہیں لیتی ،وہ ھر انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی وقت اس مقام پہ لے آتی ھے جہاں وہ بزرگوں کے کئے فیصلوں کو درست کر سکتا ھے یا ان کی غلطی کی تصدیق کر دیتا ھے ،، اگر آج آپ وھی فیصلہ کرنے چلے ھیں جو میرے والد نے کیا تھا تو یقین جانیں آپ میرے والد صاحب کے فیصلے کو درست قرار دے دیں گے اور اپنے اور میرے موقف کے غلط ھونے کی تصدیق کر دیں گے ، آخر آپ کے ابا جان اور میرے ابا جان کے درمیان بھی تو کوئی رنجش تھی ناں جس کی بنیاد پر وہ ان کے گھر بیٹی نہیں دینا چاھتے تھے ،، ؟ اور وہ رنجش بھی غالباً بکری کے کسی سودے کے نتیجے میں پیدا ھوئی تھی جس میں میرے ابا جی کو صرف 20 روپے کا نقصان ھو گیا تھا ،، انہیں نقصان سے زیادہ اپنے بے وقوف بننے کا دکھ تھا ،یوں 20 روپے کے غصے میں انہوں نے نہ صرف ھمیں تباہ کر دیا بلکہ ھم دونوں کی جان سے کھیلنے کی کوشش کی ، اگر میں یا آپ خود کشی کر گئے ھوتے تو کیا ھوتا ، ھم نے اللہ سے ڈر کر خودکشی کے ارادے کو ترک کیا تو آج اللہ پاک نے آج ھمیں پھر اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ ھم نہ صرف اس غلطی کا مداوہ کر سکتے ھیں بلکہ اپنے بزرگوں کے فیصلے کو غلط بھی ثابت کر سکتے ھیں ،،،
میں اپنے ناصر سے زیادہ آپ کی نوشی کے لئے فکر مند ھوں کیونکہ میں نوشی والے عذاب سے گزری ھوں اور کوشش کر رھی ھوں کہ اسے اس عذاب سے بچاؤں ،، البتہ ناصر کی کیفیت کو آپ بخوبی جانتے ھونگے کیونکہ آپ بھی مرد ھیں اور اس کیفیت سے گزر چکے ھیں ،،، ناصر ھپناٹائزڈ شخص کی طرح ٹکٹکی باندھے نوشین کی باتیں سن رھا تھا جو سیدھی اس کے دل کو چھو رھی تھیں ، وہ اپنی بات پہ شرمندہ تھا اور اب اس کے مداوے کی راہ ڈھونڈ رھا تھا ،، میں نہین سمجھتا تھا کہ نوشین اور ناصر ھمارے والے مقام پہ ھونگے ،، ھم تو بچپن سے ساتھ تھے ،،ایک ساتھ کھیتوں میں آتے جاتے ،مونگ پھلی چنتے اور کھیلتے تھے ، انہیں تو اتنی اٹیچ منٹ کا موقع ھی نہیں ملا ،، ناصر نے دھیمے لہجے میں کہا ،،
ھم مونگ پھلی اکٹھے چنتے تھے تو یہ اسکول اور کالج ایک ھی وین میں جاتے تھے ،، ظاھر ھے ریموٹ سینسیشن تو انہیں بھی ھم سے وراثت میں ملی ھے ، بات چیت کا موقع نہ ملنے کے باوجود وہ ٹھیک اسی مقام پہ ھیں جہاں کبھی ھم تھے ،، تو کیا اب ھم اس مقام پہ نہیں ھیں ؟ ناصر کے منہ سے بیساختہ نکلا تو نوشین نے ایک شرمیلی سی مسکراھٹ کے ساتھ موضوع تبدیل کرنے کی کوشش کی ،، دیکھیں ھمیں اب بچوں کے والدین کی حیثیت سے درست فیصلے کرنے ھیں اور وقت پر کرنے ھیں ،،
آپ پرسوں ناصر کو بھی ساتھ لائیں ناں دعوت پہ ،، ویک اینڈ ھے تو تھوڑی گپ شپ ھو جائے گی اس سے ،، ناصر کے منہ سے یہ سن کر اندر بیٹھی نوشی نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا ،، فیصلہ ھو گیا تھا اور اللہ کا شکر تھا کہ اس کے حق میں ھوا تھا ،، دو دن بعد نوشین ناصر کے ساتھ دعوت پہ آئی تو نوشی کے ابا نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا ،، نوشی کے والد ناصر سے بہت متأثر ھوئے وہ ایک پر کشش شخصیت کا مالک سلجھا ھوا جوان تھا ، دوسری جانب ناصر کو بھی نوشی کے ابا بہت پسند آئے ، وہ ایک آئیڈیل شخصیت کے مالک تھے ،نوشی کے ابا نے جب نوشین کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اسے ناصر سے ملوایا اور ناصر کی تعریف کی تو نوشین نے مسکرا کر کہا کہ میں پھر مٹھائی کھلا دوں آپ کو ،،، مٹھائی کی کوئی ضرورت نہیں گھر کی بات ھے ابھی انہیں بے فکری سے تعلیم مکمل کرنے دیں ،، وقت آنے پہ سب ٹھیک ھو جائے گا ،،،
اس کے چند ہفتے بعد جب ناصر نوشین کے گھر بیٹھا ھوا تھا ، اچانک اس نے کہا نوشی اس دن تم نے کہا تھا کہ قدرت انسان کو بزرگوں کے فیصلے درست کرنے کا ایک موقع ضرور دیتی ھے ،،،،، جی کہا تو تھا نوشین نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا ،، میں سوچ رھا تھا کہ نوشی کو اس موقع پہ ماں کی ضرورت ھے ، اس کے جوان ھونے کے بعد میں اپنے آپ کو بالکل ھی مفلوج سمجھتا ھوں وہ مجھ سے اپنی ضرورتیں شیئر نہیں کر سکتی ،، اسے اس وقت جس قسم کی گائیڈنس کی ضرورت ھے وہ صرف ایک ماں ھی دے سکتی ھے ،، ماں بھی وہ جو اس کی عمر کی نہ ھو بلکہ واقعتاً اس کی ماں کی عمر کی ھو اور اس کی خیر خواہ بھی ھو ،، اور اس معیار پہ صرف تم ھی پوری اترتی ھو ،، ناصر نے بڑی مشکل سے بات پوری کی اور نظریں جھکا لیں ،، تو گویا آپ کو نوشی کی ماں چاھئے نوشین نہیں چاھئے ،، نوشین نے شرارت سے سوال کیا ،، اس کے سوال پر ناصر نے چونک کر اسے دیکھا اور کہا کہ میں سمجھتا ھوں کہ ھم ابھی تک اس مقام پہ ھیں جہاں ھم ایک دوسرے کے اندر کو پڑھ سکتے ھیں ،، میں شاید اپنے سے بہتر تمہیں جانتا ھوں اور تم یقیناً مجھے مجھ سے بہتر جانتی ھو ،،
رات کو ڈنر کے دوران اچانک نوشین نے ناصر کو بتایا کہ آج نوشی کے ابا نے مجھے پرپوز کیا ھے وہ کہتے ھیں کہ نوشی کو اس مرحلے پہ ماں کی ضرورت ھے ،، اگر باھر سے وہ کوئی عورت لے آتے ھیں تو آگے چل کر نہ صرف نوشی بلکہ ھمیں بھی مشکلات پیش آ سکتی ھیں ،، ناصر نے ماں کی بات کو اطمینان سے سنا اور کہا کہ امی جان اس سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں ھو سکتا ،انکل ناصر ایک آئیڈیل شخصیت ھیں اور سادہ طبیعت کے مالک ھیں ،، میں خود اس موضوع پہ سوچتا رھا ھوں ، اور شاید میں خود ھی انکل کو مشورہ دیتا کہ وہ آپ کو پرپوز کریں ،، آپ کا اس گھر میں ھونا نوشی کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ھو گا ، وہ بھی اپنے ابو کی طرح سادہ فطرت لڑکی ھے ،کسی چالاک ماں کی متحمل نہیں ھو سکتی ،، دوسری جانب ناصر نے نوشی سے جب ذکر کیا کہ اس نے نوشین کو پرپوز کیا ھے تو وہ خوشی سے رونے لگ گئ ،، وہ شدت سے ماں کی کمی محسوس کر رھی تھی ،، نوشین کی صورت اسے ایک حقیقی ماں مل جاتی یوں باقی کے سارے مسائل بھی حل ھو جاتے ،،، اگلے ھی ماہ ایک باوقار تقریب میں نوشین ،،،،،،، نوشین ناصر بن گئ ،، ، اللہ نے صبر کا پھل دے دیا تھا جس گھر میں ایک نوشی اور ناصر کو اکٹھا نہیں ھونے دیا جا رھا تھا وھاں دو دو نوشی اور دو دو ناصر اکٹھے ھو گئے تھے ،،