گاھے گاھے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

میں کئی بار گزارش کر چکا ھوں کہ میں بچپن سے ھی مذھبی رجحان رکھتا تھا، اور اس رجحان کی وجہ ھمارا علمی اور مذھبی بیک گراؤنڈ نہیں تھا بلکہ ھماری جسمانی کمزوری تھی، پیدائشی طور پر ھی ھم کچھ اس طرح لحیم شحیم پیدا ھوئے تھے کہ کئی دفعہ کتا ھمیں پوتڑے سمیت ھی پیزا کا پیکٹ سمجھ کے اٹھا لے جاتا اور ریلوے لائن کے درمیان بیٹھ کر تسلی سے ھمیں صاف کر کے، پھر اس وقت تک ھماری نگرانی کرتا جب تک گھر والے ھمیں آ کر اٹھا لے جاتے ! اس جسمانی کمزوری کی وجہ سے ھم کسی قسم کی شرارت افورڈ نہیں کر سکتے تھے،اس لئے ھمیشہ استادوں سے بھی ڈرا کئے اور کلاس کے ھمجولیوں سے بھی خوفزدہ رھے، جبکہ والدین کی تو ھم غصے کی نگاہ سے بھی لرزاں و ترساں رھا کرتے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ھمارا بچپن نہایت شریف گزرا،،بلکہ گزرا کہاں وہ تو خرچ ھی نہیں ھوا،،ابھی تک ھمارا بچپن ھمارے اندر اسی طرح لڑھکتا پھر رھا ھے کہ جیسے اس چھپکلی کے انڈے کا چھلکا،جس مین سے ابھی تازہ تازہ بچہ نکلنے کی کوشش کر رھا ھوتا ھے،،اور وہ چھلکا ساتھ ساتھ گھسٹتا جا رھا ھوتا ھے! اس مذھبیت کا نتیجہ تھا کہ ھم نے بچپن سے ھی چلہ جات کی مشق شروع کر دی تھی،، پہلا چلہ غالباً پانچویں کلاس میں کیا تھا،جس کو میں تربُوڑی چلہ کہتا ھوں ( کیونکہ اس چلے کے دوران ھمیں تربوڑی عرف بھڑ نے مرکزی مسجد کے صحن کے بیچوں بیچ کچھ اس طرح ڈنگ مارا تھا کہ بس ) چار یاری صاحب کی مریدی تک پہنچتے ھم کافی سارے پیر کھا چکے تھے بلکہ ھضم بھی کر چکے تھے، جبکہ چاریاری صاحب ھمیں روحانی طور پر کنوارا اور زرخیز سمجھ کر مشقیں فرما رھے تھے بلکہ مشقت فرما رھے تھے، پہلے مراقبے میں جب کہ وہ ھمارے قلب پر تصرف کی کوشش فرما رھے تھے رات تیسرے پہر کا سمے تھا، کافی زورا زوری کے باوجود جب وہ ھم پر قابو نہ پا سکے تو انہوں نے اپنا مشہور زمانہ” اللہ ” والا نعرہ مارا،، یہ نعرہ اس گولے کی طرح ھوتا ھے جو بیلوں کی دوڑ کے مقابلے میں بیلوں کی سست پڑتی جوڑی کی ٹانگوں کے درمیان پھینکا جاتا ھے اس جوڑی کا تراہ نکالنے کے لئے !! چاریاری صاحب کے اس چیخ نما نعرے پر ھم کیا بدکتے،، گھر والے سارے اٹھ کر بیٹھ گئے کہ شاید چاریاری صاحب باتھ روم کے بٹن سے لٹک گئے ھیں،،ھمارے باتھ روم کے لائٹ کے بٹن کی کرنٹ والی تار ننگی تھی، کئی مہمان جھٹکا کھا کر سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے ھی چھوٹے پیشاب سے فارغ ھو جاتے تھے ! ھمیں مراقبہ ادھورا چھوڑ کر والدہ صاحبہ کو جا کر تسلی دینی پڑی کہ سب ٹھیک ھے آپ لوگ سو جائیں ! چاریاری صاحب سے ملاقات سے پہلے ھم مرد کو نامرد کرنے اور عورت کو ناعورت کرنے کا فن حاصل کر چکے تھے،، مگر اللہ معاف کرے چار یاری صاحب کا حال دیکھ کر ھمیں وہ مرد یاد آ گئے جو بال بچے دار بیوہ سے اس لیئے دوسری شادی رچا لیتے ھیں کہ پہلی بیوی ھماری عزت نہیں کرتی، ان کی عزت ھم نے عملی طور پر چوک میں اس طرح ھوتے دیکھی ھے کہ شیدے کلاڑ کی بھی اتنی نہیں ھوئی ھو گی، یہ شیدا کلاڑ بھی ھمارے مذھبی بچپن کا شہ پارہ ھے،،ھم اٹھویں کلاس مین ابھی تازہ تازہ پروموٹ ھوئے تھے،اور ٹیویشن پڑھنے سارے کلاس فیلو ضابط حسین چوھان کی بہن کے گھر اکٹھے ھوا کرتے تھے،، ٹیویشن کیا ھوتی تھی،، سارے لڑکے اپنی دن بھر کی وارداتیں شیئر کرتے، جن سے ھم بھی ٹوپی والا سر ھلا ھلا کر استفادہ فرماتے،چونکہ ھم میں تو یہ سب کچھ کرنے کی ھمت نہیں ھوتی تھی لہٰذا دوستوں سے سن کر ھی ثواب حاصل کر لیتے تھے،،تھوڑے تھوڑے پیسے ڈال کر کوئی ڈش پکائی جاتی،،جس دن پیسے پورے نہ ھوتے اس دن کسی کے گھر سے کبوتر یا مرغا چوری کر کے پکایا جاتا ،ھمارے مذھبی رجحان کی وجہ سے ذبیحہ کا فریضہ ھم کو ھی سونپا جاتا جیسے حاجیوں کو لوٹنے کے لئے کسی مذھبی بیک گراؤنڈ والے بندے کو وزیرِ اوقاف بنایا جاتا ھے ، یہ واردات کوئی کلاس فیلو ھی بڑے خشوع سے اپنے گھر کرواتا تھا،،یہ بچپن کے خلوص کا سب سے بڑا ثبوت تھا،ورنہ اپنے گھر کون ڈاکا پڑواتا ھے،، اس میں مزید حلال کا تڑکا لگانے کے لئے اپنی مرکزی مسجد کے امام قاری حافظ محمد اقبال آف بھلہ کریالہ کو ضرور ساتھ شامل کیا جاتا، ابھی ھم آنکھیں مل کر گھر جانے کی تیاری کر رھے تھے کہ شیدا کلاڑ گندم گندم کا گڈا اٹھایا ھوا اندر داخل ھوا اور ھمیں اشارہ کر کے بولا کہ یہ تمہاری گندم کاٹی ھے،، ڈھیٹ پن کی کوئی حد ھے؟ دادی جان پہلے ھی ھمیں کہہ چکی تھیں کہ خیال رکھنا کوئی روز میری گندم کاٹ کے لے جا رھا ھے،، ھم چپ رھے،ھم ھنس دیئے مگر دل میں سوچ لیا کہ شیدے کو ٹھوکو مائی سین کا انجیکشن لگنا چاھئے،، مسجد میں درس شروع ھوا تو ھم نے ایک انتہائ ھٹھ چھٹ اور منہ پھٹ گھرانے کے لڑکے کے نئے بوٹ اٹھائے اور مدرسے کی چھت پر پھینک دیئے اور پھر اس لڑکے کے کان میں بتا دیا کہ شیدے نے تمہارے بوٹ چھت پر پھینک دیئے ھیں،، ھمارے چہرے پر بالکل ویسی ھے معصومیت چھائی ھوئی تھی جیسی گیلانی صاحب کے چہرے پر تھی جب انہوں نے امریکن خاتون سے سوال کیا تھا کہ ” پھر یہ لوگ ملک سے باھر جاتے کیوں نہیں؟ ان کو کون روکتا ھے؟؟ تھوڑی دیر کے بعد دھڑ دھڑ کرتے ٹرپل ون بریگیڈ کی طرح ملک صاحبان نازل ھوئے،جوتے اتارے گئے،ھم سے دوبارہ تصدیق کرائی گئ اور یہ گینگ شیدے کے گھر کی طرف چلا گیا،، بس جھٹ بھر کی بات تھی اللہ معاف فرمائے میں نے شیدے کو ان کے ھاتھوں کچھ یوں لٹکے دیکھا کہ اب بھی کسی ھوٹل کے باھر ٹھیک چولہے کے اوپر جب مرغے لٹکے دیکھتا ھوں تو شیدا کلاڑ یاد آ جاتا ھے،،پیر بابا شاہ لاھوری کے مزار کے سامنے میدان مین لا کر اس کو ڈالا گیا،، شیدے نے بڑے اعتماد سے کہا کہ اگر یہ شاہ لہوری کو ھاتھ لگا کر کہہ دے کہ میں نے بوٹ چھت پر پھینکے ھیں تو جو چور کی سزا وہ میری !! ھم جو اس وقت تک ملک محبت حسین کا ترجمہ قرآن سن کر پونے وھابی ھو چکے تھے،دونوں ھاتھ جوڑ کر شاہ لہوری پر رکھے اور نہایت اعتماد کے ساتھ کہا کہ شیدے نے ھی چوری کی تھی ! بس جناب پھر شیدا تو بندوں میں غائب ھو گیا،مکے ،ٹھڈے، جوتے،، سب کچھ اس کی سروس کے لئے استعمال ھو رھا تھا،مگر جب بھی موقع ملتا شیدا سر نکال کے یہ ضرور چیک کرتا کہ ھم اب تک کتنا زمین مین دھنس چکے ھیں،، مگر جب مارنے والے تھک کر بس کر گئے اور شیدے نے ھمیں شترو گھن سنہا کی طرح شاہ لہوری کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے دیکھا تو ،،، میں نے شیدے کے چہرے پر زلزلے کے آثار دیکھے اور ایک کٹر بریلوی کے اندر سے پھڑپھڑا کر  ایک وھابی کو ٹھیک اسی طرح جنم لیتے دیکھا جیسے پیوپا مین سے تتلی نکلتی ھے،، وہ بڑے آرام کے ساتھ لنگڑاتا ھوا شاہ لہوری کی دیوار تک پہنچا اور اسے خطاب کر کے کہنے لگا ” تمہارا بندوبست میں کرتا ھوں ” بس اس کے بعد شیدے نے کبھی بھی پیر بابا شاہ لہوری کو پیسے سونگھنے بھی نہیں دیئے جونہی کوئی پیسے رکھ کے ھٹتا ،کہیں سے شیدا نمودار ھوتا اور پیسے نکال جیب میں ڈالتا اور سگریٹ لینے چلا جاتا !