گاھے گاھے باز خواں ایں قصہِ پارینہ را ،،،،

 
قولِ فیصل!
1- ھم نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے متعلق تمام احادیث کو مانتے ھیں چاھے وہ نماز کے مسائل سے متعلق ھوں یا اس کے ترک پر وعید اور اقامت پر جزاء و ثواب سے متعلق ھوں!
2-ھم غسل اور وضو سے متعلق تمام احادیث کو مانتے ھیں ،جن میں ان کے انعقاد و افساد کے بارے میں بتایا گیا ھے !
3- ھم روزے سے متعلق تمام احادیث کو مانتے ھیں اور روزے کے قائم رھنے یا ٹوٹ جانے کے بارے میں ھوں یا روزے کے ثواب سے متعلق ھوں یا روزے کے ترک پر وعید سے متعلق ھوں –
4- ھم زکوۃ کے بارے میں تمام احادیث کو حجت مانتے ھیں –
5- ھم حج کے بارے میں تمام احادیث کو مانتے ھیں ، وہ اس کے قوانین و ضوابط ،ارکان و شرائط سے متعلق ھوں یا حج کے اجر و ثواب اور ترک پر وعید سے متعلق ھوں !
6- ھم شادی بیاہ ، طلاق و نکاح سے متعلق احادیث کو مانتے ھیں ،،،،
7- بیع و شراء ، تجارت سے متعلق تمام احادیث سر آنکھوں پر !
ایمانیات ،جنت ،دوزخ ، حشر حساب کتاب اور برزخ سے متعلق جتنی احادیث ھیں ھم انہیں مانتے ھیں !
8- ھم نبئ کریم ﷺ کی طرف سے بتائے کے اذکار اور دعاؤں پر مشتمل تمام احادیث کو مانتے ھیں اور ان اذکار کا ورد کرتے ھیں ،، اپنی دعا سے بہتر اور جامع نبیﷺ کی دعاؤں کو سمجھتے ھیں !
9- اخلاقیات سے متعلق تمام احادیث کو ھم مانتے ھیں !!جس کو نبی کریمﷺ نے بُرا کہہ دیا ھے وہ قیامت تک کے لئے برا ھے چاھے زمانہ اسے لاکھ اچھا سمجھے ، جسے نبئ کریم ﷺ نے اچھا کہہ دیا ھے ،وہ قیامت تک اچھا ھے چاھے زمانہ اسے لاکھ بُرا سمجھے !
10- حلت و حرمت سے متعلق ھم تمام احادیث کو حجت مانتے ھیں اور نبئ کریم ﷺ کا حلال و حرام کردہ بھی اللہ کے حلال و حرام کردہ کے برابر سمجھتے ھیں !!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، مگر ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
1- میں یہ نہیں مانتا کہ قرآن میں سے کوئی آیت بکری کھا گئ ھے اور پھر وہ آیت قران کا حصہ نہ رھی ،،، اس لئے کہ ایک بکری اللہ کے اس کتاب کی حفاظت کے وعدے اور ارادے پہ غالب نہیں آ سکتی ،، اور اس لئے بھی کہ یہ حدیث قرآن کے اس دعوے کو جھٹلا رھی ھے کہ ” اس کتاب میں کوئی شک نہیں ” جس کے وجود میں ھی شک ھو، اس کے اندر یقینی کیا رہ جاتا ھے ؟ ،،
2- میں یہ حدیث کبھی نہیں مان سکتا کہ جوان عورت جوان مرد کو دودھ پلا کر بیٹا بنا لے ، اس لئے کہ خود نبئ کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ انما الرضاعۃ من المجاعۃ،، رضاعت صرف اسی زمانے کی معتبر ھے جب بچے کی خوراک دودھ ھوتی ھے اور وہ بھوک کی وجہ سے دودھ پیتا ھے محرم بننے کے لئے دودھ نہیں پیتا ! دوسرا اس وجہ سے کہ یہ بے حیائی ھے اور اللہ اس کا حکم کبھی نہیں دیتا !
3- میں اس حدیث کو نہیں مانتا چاھے اس کا راوی کے -ٹو سے بلند اور ھمالیہ سے زیادہ وزنی ھو کہ قرآن میں دس چُوسے یا پانچ چُوسے والی کوئی آیت تھی جسے بکری کھا گئ ،، اور یہ آیت کسی زمانے میں تلاوت بھی کی جاتی تھی
4- میں اس حدیث کو ھر گز نہیں مانتا کہ جس میں موسی علیہ السلام کو مادر زاد ننگا کر کے مجمعے میں اللہ نے اس لئے پھرایا کہ وہ مجمع دیکھ لے کہ موسی علیہ السلام کے جنسی اعضاء بھی خوبصورت ھیں ، اور وہ کسی عیب کی وجہ سے دیگر مردوں کے ساتھ ننگا نہانے سے نہیں کتراتے ،، بلکہ فطری شرم کی وجہ سے الگ نہاتے ھیں ، امید ھے کہ یہ شرم اللہ کی طرف سے اتار دینے بلکہ تار تار کر دینے کے بعد موسی علیہ السلام باقی لوگوں کے ساتھ ننگا نہانا شروع ھو گئے ھونگے ،کیونکہ اب باقی بچا ھی کیا تھا ،، یہ حدیث میرے ایمان بالرسالت کے خلاف ھے ، نبی سب برابر ھیں جس طرح قرآن کی آیتیں سب برابر ھیں جس طرح میں اپنے نبی کا ننگا ھونا تسلیم نہیں کر سکتا اسی طرح کسی نبی کو بھی اللہ کی طرف سے اس طرح رسوا کرنا نہیں مان سکتا ،، اللہ بے حیائی کو ناپسند فرماتا ھے اور اس سے روکتا ھے اور ” قل ان اللہ لا یأمرُ بالفحشاء ” اللہ کسی کو بھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا !
5- قرآن کی آیات میں کمی بیشی یا کسی کے مشورے سے ان کی تقدیم و تاخیر والی کسی حدیث کو میں نہیں مانتا ،، نبئ کریم ﷺ اسے کتابی شکل میں چھوڑ کر گئے تھے ، ایمیرجنسی میں نہیں گئے تھے ،،
6- سورہ الاحزاب کی ابتدا میں تفسیر ابن کثیر میں دی گئ اس حدیث کو میں نہیں مانتا جس کے مطابق صرف سورہ الاحزاب میں سے 213 آیتیں غائب کر دی گئیں ،،،،
7- میں یہ کسی صورت نہیں مان سکتا کہ نبئ کریم ﷺ نے چھ سال کی بچی سے شادی کی ، اس لئے کہ میں یہ خود نہیں کر سکتا ،چاھے وہ بچی کتنی ھی خوبصورت ھو ،میں اسے اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتا اور نہ ھی چودہ صدیوں سے روایتیں کرنے والے راوی اور نہ حدیثیں حفظ کرنے اور پڑھانے والے شیوخ الحدیث اس پر شرم کی وجہ سے عمل کر پائے ھیں – ڈھیٹ پن کی حد ھے کہ جسے خود نامعقول سمجھتے ھیں اسے اپنے نبی سے منسوب کرتے ھیں ،، نہ کوئی جوانمرد نبی ﷺ کی سنت ادا کرنے اٹھا اور نہ ھی کوئی مائی کا لعل ابوبکر صدیقؓ کی سنت ادا کرتے ھوئے چھ سال کی بچی پچاس سال کے شیخ الحدیث سے بیاھنے کے تیار ھوا ،، بس حدیث بیان کر کے ھی ثواب لیتے رھے ،، یہ دنیا کا نواں عجوبہ ھے ،، جو نبیوں میں سے صرف ایک نبی اور امتیوں میں سے ایک امتی نے سر انجام دیا ھے ،،میرے نزدیک یہ تقدس کی اندھی پٹی کا کمال ھے ،اور جھوٹی روایت ھے ،جسے میں اپنے نفیس النفس نبی کی شان کے خلاف اور توھین سمجھتا ھوں !
8- میں نبئ کریم ﷺ پر جادو کی کسی روایت کو نہیں مانتا ،شیطان کبھی میرے نبی ﷺ پر غلبہ نہیں پا سکتا اور نہ ھی اس قلب پہ قبضہ جما سکتا ھے جو وحی کا مھبط ھے اور جس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ھے !!
9- میں نہیں مانتا اس حدیث کو کہ صحابہؓ مرتد ھو گئے تھے کیونکہ ان کے ایمان کی سلامتی کی ضامن قرآن کی وہ آیات ھیں جن میں ان کو رب کی دائمی رضا سے نوازا گیا ھے !( ارتدوا علی ادبارھم القھقری )
10- میں اس حدیث کو نہیں مانتا جس میں نبئ کریم ﷺ کی بار بار خودکشی کرنے کی کوشش کا ذکر ھے – جو نبی اپنی رسالت کے بارے میں خود اتنا مشکوک ھو کہ اپنی جان لینے پہ تُل جائے ،پھر اس رسول ﷺ پہ ایمان لانے کی دوسروں کو دعوت کیسے دی جا سکتی ھے ،،
تلک عشرۃ کاملہ !!
1- قرآن قول فیصل ھے ،،، اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ھے ،،
وَالسَّمَاء ذَاتِ الرَّجْعِ {11}
وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ {12} إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ {13} وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ {14}
2 – قران ھی وہ واحد میزان ھے جس پہ حق و باطل کو پرکھا جائے گا ، جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کیا جائے گا ، صحابہ کا مقام بھی اس کی روشنی میں طے کیا جائے گا – قول رسول ﷺ کو بھی اسی پر تولا جائے گا اور اس کے سامنے پیش کیا جائے گا ، اگر وہ اس کی تشریح ھے تو قرآن کے بنیادی ڈھانچے اور بنیادی تعلیمات کے خلاف نہیں ھونی چاھئے ،، یہ اصول چند لوگوں نے بیٹھ کر طے نہیں کیا ،، یہ خود اللہ پاک نے طے کر دیا ھے ،،
الله الذي أنزل الكتاب بالحق والميزان ( شوری )
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ( الحدید )
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ – امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ۔ امام نسائیؒ – امام ترمذیؒ- امام ابو داودؓ – ابن ماجہؒ – امام مالکؒ کو اگر حق حاصل ھے کہ وہ اپنی اپنی کتاب کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کریں اور ھم سے تقاضہ کیا جاتا ھے کہ ھم ان کتابوں کو ان کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں ھی پڑھیں ،، تو اللہ پاک اس کا زیادہ حقدار ھے کہ اپنی کتاب کے اصول طے کرے اور اس کی کتاب کو اس کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں ھی پڑھا جائے ، یہ اصول قرآن حکیم میں موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ھیں ،، جہاں جہاں الکتاب کا ذکر آیا ساتھ اس کا مشن ضرور بتایا گیا ھے ،، متعلقہ آیات کو فرصت ملتے ھی اسی پوسٹ میں ڈال دیا جائے گا ،،،
قرآن کتابِ ھدایت ھے اور ھدایت کا سارا سامان اس کے اپنے اندر موجود ھے !
من یبتغ الھدی فی غیرہ اضلہ اللہ ! جس نے ھدایت کو اس کے علاوہ کہیں
ڈھونڈا اللہ اسے گمراہ کر دے گا ( او کما قال النبی ﷺ فی خطبۃ تبوک )
جس نے اس کی بنیاد پر کہا،، سچ کہا – جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا – یہ قول فیصل ھے سابقہ کتابیں ھوں یا ان کتابوں کے رسول سب کی بات اس کی بنیاد پر رد و قبول کی جائے گی ! اسلاف گزر جانے والے ھوں یا اخلاف آنے والے سب اس کی بنیاد پر پرکھے جائیں گے ،، یہ سب سے بزرگ ھستی کا کلام ھے اور مستقبل کے جاننے والے رب کی دی گئ خبر ھے جو قیامت تک یقین کے ساتھ قبول کی جاتی رھے گی،، یہ کتابوں کی بھی امام ھے اور انسانوں کی بھی امام ھے ! ساری کتابیں اس کی محتاج ھیں یہ کسی کی محتاج نہیں ! ساری کتابیں اس میں سے نکلی ھیں اور یہ کسی میں سے نہیں نکلی ! یہ ام الکتاب ھے – یہ سادہ ترین توحید ھے اور آسان ترین رستہ ! ایسا ممکن نہیں کہ رب ایک بات کہنا چاھتا تھا اور اسے اپنا ما فی الضمیر سمجھانے کے لئے الفاظ نہیں ملے ! یا جن لوگوں مین نازل ھوا وہ اسے سمجھ نہ پائے ! قرآن اپنی مجمل کو مفصل خود کرتا ھے اور اپنے خزانوں کی چابی اپنے پاس رکھتا ھے اور ڈھونڈنے والے کو عطا کرتا ھے ! اللہ کا وعدہ ھے کہ وہ اس کے چھپے کو کھولے گا اور کھلے کی شرح کرے گا،، ثمہ ان علینا بیانہ ،، یہ کتاب مبین ھے جس کا تبیان خود رب کریم نے کیا ھے ! قرآن کو سب سے پہلے قرآن سے ھی سمجھنا چاھئے ،، اور اس کی بات کے بعد مزید کی تلاش نہ کی جائے ، عبادات کی تفصیل نبیﷺ کی سنت میں موجود ھے ! جتنا ایمان اور اس کی تفصیل صحابہ لے کر جنت نشین ھو گئے، بس اتنا ھی مطلوب ھے ،یہی وہ جماعت ھے جس کی راہ ھم اپنی ھر نماز کی ھر رکعت میں طلب کرتے ھیں مگر نماز کے بعد اس کو کافی نہیں جانتے بلکہ ایک ایکسڑا میڈیکل کِٹ کا اھتمام کرتے ھیں ! اسی میڈیکل کٹ میں طلسم کی ھوشربائی کے ساتھ ایمان کے لئے زھر قاتل بھی موجود ھے ! ھمارا حال اس ھوٹل والا ھے جس میں سارا دن لوگوں کو کھانا کھلانے والے خود اس کھانے کو کھانا پسند نہیں کرتے ! جو ھدایت عوام کے لئے کافی ھے وہ خواص کے منہ میں زیرے کے مترادف ھے ! اس عام اور سادا سی توحید اس کی داڑھ بھی سلونی نہیں ھوتی !
لوگ سادہ شراب پیتے ھیں !
ھم مـلا کر گلاب پیتے ھیں !
جو ایمان سلامت لے کر نکل گیا ! بخدا وہ کامیاب ھو گیا ! کہ سارے فیصلے اس کی بنیاد پر ھونے ھیں،، جو اس سے محروم ھوا اس کے لئے میزان ھی نہیں رکھا جائے گا