کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں ؟

میں بڑے یقین سے یہ بات کہتا ھوں کہ جب مسلک کی پٹی آنکھوں پر بندھی ھو تو ایمان باللہ ھی نہیں ایمان بالرسالت بھی خطرے میں ھوتا ھے ! یہ ایک دو چار بار نہیں میں نے 100 میں سے 99 کیسوں میں یہ دیکھا ھے کہ یہ لوگ قرآن و حدیث اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں اپنے اکابر کو ترجیح دیتے ھیں، ان کی ذات اور بات کو مقدم جانتے اور ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ،، کی خلاف ورزی کرتے ھیں !!
جب مولانا عبدالعزیز یہ کہتے ھیں کہ ” اگر میں برقعے میں بھاگا ھوں تو کیا رسول اللہ ﷺ نہیں بھاگے تھے ؟ ” تو ان ظالموں کو اپنے مسلک کے عالم حق پر کوئی غصہ نہیں آتا ،، نبی ﷺ کی کوئی توھین نظر نہیں آتی ” کیونکہ یہ ان کے عالمِ حق سے صادر ھوتی ھے ، ،، علمائے حق ایک خاص نسل ھے ، جسے سات خون معاف ھیں ،، البتہ کوئی اگر ان کی غلطی کی نشاندھی کر دے تو اس سے سوال ھوتا ھے ” تمہیں کس نے علمائے حق پر تنقید کا ٹھیکہ دے دیا ھے ؟ کیا یہود و نصاری کی دوستی کا حق ادا کر رھے ھو ؟؟
یہ ایک بندہ نہیں ایک سوچ ھے ،، یہ ایک مائنڈ سیٹ ھے ،، اس کی مثال اس میموری کارڈ کی سی ھے جو نوکیا میں ڈالو یا سونی اریکسن میں samsung میں ڈالو یا کیو فون میں ،اس کے Contents تبدیل نہیں ھوتے ، یہ سوچ بہت اوپر سے چلتی ھے !
ایک بزرگ اپنے اصولِ فقہ بیان کرتے ھوئے 18واں اصول کچھ یوں بیان کرتے ھیں ؎
” انۜ کل آیۃٍ تخالف قول اصحابنا فأنھا تحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق ،، ( اصول کرخی اصول نمبر 18 )
ھر وہ آیت جو ھمارے فقہاء کے قول کے خلاف ھو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا ،، یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا ،، اور اولی یہ ھے کہ اس آیت کی تأویل کر کے اسے ( فقہاء کے قول کے ) موافق کر لیا جائے ”
ظاھر ھے جب ھمارے فقہاء کے قول کے خلاف قول اللہ کو منسوخ تصور کر لیا جائے ، اور ھر صورت میں اسے قولِ فقیہہ کے سامنے لٹا دیا جائے تو حدیث بیچاری ان کے آگے کیا بیچے گی ؟ مگر پھر بھی حدیث کا حشر بھی دیکھ لیجئے ،،
” انۜ کل خبر بخلاف قول اصحابنا فأنہ یحمل علی النسخ ، او انہ معارض بمثلہ ثمہ صار الی دلیل آخر ، او ترجیح فیہ بما یحتج بہ اصحابنا من وجوہ الترجیح او یحمل علی التوفیق ( اصول کرخی اصول نمبر 29 )
ھر وہ حدیث جو ھمارے اصحاب ( فقہاء حنفیہ ) کے قول کے خلاف ھو گی اسے منسوخ سمجھا جائے گا ،، یا یوں سمجھا جائے کہ یہ حدیث ضرور کسی دوسری حدیث کے خلاف ھو گی ،، ( اگر حدیث پھر بھی قابو نہیں آرھی ) تو کوئی دوسری دلیل ڈھونڈی جائے گی ،، پھر بعض وجوہ کو لے کر اس حدیث کو ترجیح دی جائے گی جس سے ھمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ھو گی یا یہ سمجھا جائے گا کہ موافقت کی کوئی اور صورت ھو گی ” جو ھمیں معلوم نہیں ،،
ایک شیخ لکھتے ھیں !
یترجح مذھبہ وقال ” الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسئلہ و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ ،،، واللہ اعلم ( التقریر للترمزی ص 36)
امام شافعی کا مذھب راجح ھے ، حق اور انصاف تو یہ ھے کہ امام شافعی کو اس مسئلے میں ترجیح حاصل ھے مگر ” ھم مقلد ھیں ھم پر اپنے امام ابی حنیفہ ھی کی تقلید واجب ھے !
یہ وہ مقام ھے جہاں کچے کے علاقے میں یا تھر کے صحراء میں ایک ان پڑھ بکریاں چلانے والا اور شیخ الہند برابر ھو جاتے ھیں ،،
جبکہ کہا یہ جاتا ھے کہ عامی پر تقلید واجب ھے اور عالم کو علم کا اتباع کرنا چاھیئے مگر علم کہہ رھا ھے کہ ترجیح شافعی کے موقف کو حاصل ھے اور تسلیم کر رھے ھیں کہ حق اور انصاف شافعی کے قول پر فتوی دینا ھے ،مگر،، فماذا بعد الحق الا الضلال ،، حق کے بعد پھر ضلالت کے سوا اور کیا ھے ،، انصاف کے بالمقابل بے انصافی اور حق کے بالمقابل باطل کے سوا کیا ھے ؟