کھلا تضاد ،،

صحابہ آخرت کے بارے میں لرزاں و ترساں رھا کرتے تھے ،،
خلیفہ راشد ،یکے از عشرہ مبشرہ ،خیر البشر بعد الانبیاء ، ثانی فی الاسلام و فی غار و فی بدر و فی مزار ،، فرماتے ھیں کہ کاش میں کسی درخت کا پتہ ھوتا ،اس پتے کو کوئی بکری کھا گئ ھوتی اور اس بکری کو کسی نے ذبح کر کے کھا لیا ھوتا ،،
خلیفہ راشد دوم ، محدث امت ،، یکے از عشرہ مبشرہ الفاروق عمرؓ ابن الخطاب فرماتے ھیں کہ برابر سرابر بھی جان چھوٹ جائے تو غنیمت ھے ،،
مگر ھندوستان کے ناریل پہ بیٹھ کر چلہ کشی کرنے والے ھمارے اکابر مرتے ھی نہ صرف معصوم قرار دے دیئے جاتے ھیں بلکہ مَلأ اسفل کے فرشتوں میں جا شامل ھوتے ھیں جن کے ساتھ مل کر اپنے مریدین کی بلائیں دفع کرتے ھیں اور ارزاق کا بندوبست کرتے ھیں ، گویا اب ان کے اعمال حشر کے ترازو میں نہیں تولے جائیں گے ،، کنوئیں میں الٹا لٹکنے سے اگر بندہ ولی اللہ بنتا ھے تو چمگادڑ ضرور اللہ کی ولیہ ھوتی ،، اگر ایک ٹانگ پہ کھڑا رھنے سے بندہ قطب بنتا ھے تو بگلا ضرور قطب شمالی اور قطب جنوبی دونوں کا حامل ھوتا ،،، یہ ساری مشقتیں ،تپسیا ، محنتیں ، ھندؤوں کے اس عقیدے کا نتیجہ ھے کہ دیوتا اذیت پسند ھیں انسان جتنی مشقت میں اور برے حال میں رھتا ھے وہ خوش ھوتے ھیں اور ھر اذیت کے بعد خوش ھو کر کچھ شکتیاں اور ان شکتیوں کے تابع کچھ موکل دان کرتے ھیں ، اس لئے ان میں اچاریہ یعنی قطب وھی بنتا ھے جو اپنے سارے کپڑوں سے بھی دستبردار ھو کر صرف بالوں سے ستر چھپائے ھوتا ھے ، ان کی شیلا میں کئ ایسے نانگے باقاعدہ چارپائیوں پر اٹھا کر لائے جاتے ھیں اور لوگ ان کو چومتے چاٹتے ھیں ،، اسی سے ھمارے یہاں کا تصور ” جتنا ننگا ،اُتنا چنگا ” ابھر کر آیا ھے ، نبئ کامل محمد مصطفی صلی اللہ کا لایا ھوا دین اور اس کی تعلیمات کا بنیادی اصول ھی اللہ کی رحمت ھے ، وہ رب العالمین ھے اس نے اپنے بندوں پر بہت ساری چیزیں فرض کی ھیں مگر اپنے اوپر صرف رحمت فرض کی ھے ” کتب علی نفسہ الرحمہ ” اپنے نبی ﷺ کو تمام جہانوں اور زمانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ھے ، وما ارسلناک الا رحمۃً للعالمین ” اور ان کو یہ خوش خبری دے کر بھیجا ھے کہ ” یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ،، اللہ پاک تمہارے لئے آسانی چاھتا ھے تنگی نہیں چاھتا ،، وما جعل علیکم فی الدین من حرج ” اس نے جس چیز میں بھی تمہیں حرج ھو اس چیز کو دین سے نکال دیا ھے ، وہ اذیت پسند نہیں بلکہ رحیم اور کریم ھے ،، وہ نہ گندہ ھے ، نہ گندگی پسند کرتا ھے ،، وہ تمہیں گندہ نہیں دیکھنا چاھتا ،یرید لیطھرکم ،، وہ تمہیں پاک صاف دیکھنا چاھتا ھے ، وہ حکم دیتا ھے ھر نماز میں آؤ تو خوب زینت کر کے آؤ ،، یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد ،،، پھر لوگوں سادھو ازم کو ولائیت کہہ کر اس کا پیوند اسلام کے ساتھ کیسے لگا سکتے ھیں جس کی ھر چیز الگ ھے ،،